پاکستان میں سرکاری ملازمتوں میں میرٹ کی پامالی ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، جسے مزید بگاڑنے میں سندھ حکومت کی جانب سے عمر کی رعایت جیسے فیصلے نے خاصا کردار ادا کیا۔ عدالت عظمیٰ نے حال ہی میں سندھ حکومت کے سرکاری ملازمتوں کے لیے عمر کی حد میں 15 سالہ رعایت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام میرٹ کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور انتظامی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ اور اہلیت کا معیار وہ بنیاد ہے جس پر مضبوط اور کامیاب حکومتی نظام قائم ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے عمر کی رعایت میں اضافے کا نوٹیفکیشن بغیر کسی معقول وجہ یا قانون سازی کے جاری کیا، جس کا مقصد مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانا معلوم ہوتا ہے۔ اس بے ضابطہ فیصلے نے میرٹ کے اہل امیدواروں کے حق کو بری طرح پامال کیا اور سرکاری اداروں میں نااہل افراد کو بھرتی کرنے کی راہ ہموار کی۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ بھرتیوں کے عمل میں ’’صرف میرٹ‘‘ ہی معیار ہونا چاہیے اور اقربا پروری و جانبداری کی تمام شکلیں ناقابل قبول ہیں۔ سندھ حکومت نے 15 سالہ رعایت کا یہ جواز دیا کہ تقرریوں میں طویل وقفہ کی وجہ سے امیدواروں کو اضافی مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ بات خود حکومت کی ناقص کارکردگی کو پھر عیاں کرتی ہے۔ اگر حکومت وقت پر بھرتیوں کا عمل شروع کرتی تو نہ ہی عمر میں رعایت کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی میرٹ کے اصولوں کی پامالی ہوتی۔ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس قسم کی رعایت پنشن اور مالی بوجھ میں اضافے کا باعث بنتی ہے، جو کہ قومی خزانے پر ایک اضافی بوجھ ہے۔ عدالت عظمیٰ کاخوش آئند اقدام ہے جو شفافیت اور میرٹ کے نظام کی بحالی کے لیے ضروری ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتیں مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے بے ضابطہ رعایتوں سے باز آئیں اور میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کے نظام کو مضبوط بنائیں۔ یہ فیصلہ میرٹ اور شفافیت کی اہمیت کے پس منظر اہم ہے ، جس کی تقلید ملک بھر میں ہونی چاہیے تاکہ میرٹ کا قتل عام نہ ہو اور باصلاحیت نوجوانوں کو ان کا حق مل سکے۔