ملک کے دینی لوگ جو آپس میں مل بیٹھنے پر ’’کارِ دین‘‘ کی کمی کا رونا روتے ہیں، میرا مشاہدہ ہے کہ وہ سارا الزام دوسروں پر دھرتے ہیں (چاہے وہ اْن کے اپنے ساتھی یا پیش رو ہوں، چاہے حکومت اور اس کے کارکن ہوں، چاہے مخالفین اور معاندین) اور گفتگو جب اس رخ پر چل نکلتی ہے تو اصل مبحث فراموش ہی ہو جاتا ہے۔ ہر دو دو چارچار ملنے والے بات کرتے کرتے ایک عدالت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اور کسی بھی غیر حاضر ملزم کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس پر فردِ جرم لگا دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ خرابی احوال اور کوتاہی کار کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کم سے کم میرا تجربہ و مشاہدہ یہی ہے کہ اس قسم کی پرائیویٹ مجالس اور گفتگوئوں میں خود شرکا یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا فرض کیا ہے اور ان کے امکان میں کیا کچھ ہے۔ اور انہیں کن کمزوریوں یا مشکلات کو دور کرکے سعی و جہد کرنی ہے اور انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ خود ایک کمزور پر زہ بن جانے کے بعد نیکی پھیلانے والی ساری مشینری پر کیسا برا اثر ڈالتے ہیں۔ اور اگر ایسے ہی چند پرزے اور موجود ہوں جن میں سے کوئی ناکارہ ہو جائے، کوئی اڑ اڑ کر چلے، کوئی بار بار ساتھ کے پرزوں کو خراب کرے تو مجموعی نتیجے پر کیا اثرِ بد پڑے گا۔
میں ایسی گفتگوؤں کو ترس گیا کہ دینِ بر حق کی دعوت پھیلانے والے دو چار دوست مل کر یہ سوال اٹھائیں کہ آئو بھائیو! یہ سوچیں کہ ہمارے اندر ایک عرصے سے برف کیوں گرنے لگ گئی ہے، ہمارے جذبات آئس کریم کیوں بنتے جارہے ہیں؟ ہم ایک ٹھنڈی یخ دلدل میں آہستہ آہستہ نیچے جارہے ہیں، آخر کیوں؟ اور پھر اس پر غور کریں کہ ہمارے اندر کس چیز کی کمی ہے؟ پہلے ہم کیا کرتے تھے جو اب نہیں کرتے، یا پہلے کیا نہیں کرتے تھے جو اب کرنے لگے ہیں؟ پھر وہ یہ مثبت قدم اٹھائیں کہ ہم بحالاتِ موجودہ (in given conditions)اپنی قوتوں کو دین کی سربلندی کے لیے کس کس طرح استعمال کرسکتے ہیں اور جو کمی رہ گئی ہے اس کی تلافی کیسے کرسکتے ہیں۔ ( تحریکی شعور)