جہاد اور فساد فی الارض کا فرق

68

اسلام نوعِ انسانی کی خیر وفلاح کا ضامن ہے۔ امن وعدل کی تعلیم دیتا ہے، نیز فتنہ وفساد اور ظلم وجور کے سد باب کی تلقین کرتا ہے۔ دیگر نظریات میں اس قدر واضح تعلیمات شاید نہ ملیں۔
اسلام دین فطرت ہے وہ معاشرے میں فطری حقوق کے حصول کو امن کا سبب قرار دیتا ہے جب کہ فساد فی الارض دنیا و آخرت میں ناکامی کا باعث ہے۔ اسلام کا نظامِ جہاد بنی نوع انسان کے لیے فلاح وبہبود کا ضامن ہے۔ یہ نظام ظلم وعدوان سے معاشرے کو بچاتا اور امن وعدل کی بحالی کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے۔
بعض معاندین اسلام نے انسانیت کی فلاح پر مبنی اس نظام کو طعن وتشنیع کا موضوع بنایا ہے اور یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات خوں ریزی کی تعلیم دیتی ہیں اور دنیا میں اسلام کی اشاعت انہی انسانیت کش تعلیمات کا نتیجہ ہے، حالانکہ حقائق وشواہد اس کے برعکس ہیں۔ اس جھوٹ کو اس قدر دھرایا گیا ہے کہ اب ایک طبقہ اسلام اور دہشت گردی کو مترادف سمجھنے لگا ہے۔
جہاد کا حقیقی مفہوم ومدعا اس دور کی تعلیم یافتہ دنیا کے لیے ناقابل فہم اور نامانوس سا ہوگیا ہے۔ جہاد کا لفظ سنتے ہی چہرے بگڑنے لگتے ہیں۔
نام نہاد ترقی یافتہ قوموں کا وطیرہ یہ ہے کہ اپنے اقتصادی و سیاسی مفادات کے لیے بندگانِ خدا پر بموں و میزائلوں کی بارش کرتے ہیں۔ ڈینیل پائپسی نے بربنائے شرارت، غزوات کو جارحانہ اقدام قرار دیا ہے:
’’اپنے دور اقتدار میں پیغمبر اسلامؐ اوسطاً سالانہ نو جنگی مہموں میں مشغول رہے یا ہر پانچ ہفتوں میں ایک جنگ کی۔ اس طرح جہاد نے ابتداء ہی سے اسلام کا تعارف کرایا اور پیغمبرِ اسلام کے جہاد کا سب سے اہم مظہر غیر مسلموں کو زیر کرنا اور ان کو ذلیل کرنا تھا‘‘۔ (ابن منظور، لسان عرب، ص 133، بیروت)

علماء کے اقوال
علامہ بدرالدین عینی جہاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جہاد شرعاً اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے نافرمان طاقتوں کی پوری طاقت وقوت سے سرکوبی کرنے سے عبارت ہے۔
امام کاسانی حنفی کے بقول: ’’عرف شرعی میں جہاد اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے جانی ومالی اور لسانی قوتوں کو پوری طاقت سے صرف کرنے کا نام ہے‘‘۔ (بدائع الصنائع)
جہاد کی مذکورہ بالاتعریفیں اگرچہ درست ہیں اور قرآن کے فلسفہ جہاد کے مطابق ہیں لیکن حقیقت جاننے کے لیے، جہاد کی جامع تر تعریف درکار ہے۔ وہ یہ ہے: ’’دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ، ترویج وسربلندی، اعلاء کلمۃ اللہ اور رضائے اِلٰہی کے حصول کے لیے اپنی تمام لسانی، مالی، جسمانی، فکری اور ذہنی صلاحیتوں کا استعمال‘‘۔

جہاد کی اہمیت
حضورؐ نے جب اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا شروع کیا تو بتدریج یہ دعوت عام لوگوں میں پھیلتی چلی گئی، گھٹا ٹوپ اندھیرے اجالوں میں تبدیل ہونے لگے اور خدائے واحد کے پرستار تیزی سے اس پیغام حق کو قبول کرنے لگے، کفار ومشرکین کو یہ تبدیلی گوارا نہ تھی تو انہوں نے مخالفتوں اور مزاحمتوں کا طوفان کھڑا کردیا اور چراغ حق کو بجھانے کے لیے ان کی جانب سے لامتناہی کوششوں کا سلسلہ چل پڑا، مشرکین مکہ اہل ایمان کو ظلم وستم کا نشانہ بناتے رہے تو حضورؐ مسلمانوں کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے کیوں کہ اللہ کی طرف سے صبرو تحمل کا درس دیا گیا تھا۔
اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور آپ اپنے رب کی اس تجویز پر صبر سے بیٹھے رہیے کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں۔ اور اٹھتے وقت اپنے رب کی تسبیح وتحمید کیجیے‘‘۔ (سورہ الطور: 48)
مشرکین مکہ کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح اہل حق، بندگی وحدہ لاشریک سے مجتنب ہوجائیں اور اپنے آباء واجداد کے دین کے دوبارہ پیرو ہوجائیں ہجرت کے بعد حکم جہاد نازل ہوا۔
ارشاد ربانی ہے:
’’کفار ومشرکین سے قتال کی اجازت دی گئی کیوں کہ وہ لوگ (مسلمان) مظلوم تھے‘‘۔ اگر اسلام مشرکین سے جنگ کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اس کا مقصد ظلم وزیادتی کا قلع قمع کرنا اور مذہب وعقیدے کی آزادی کی بحالی ہے۔

مولانا بدرالقادری اسلام اورامن عالم میں رقمطراز ہیں:
’’جہاد اس لیے ضروری ہے کہ معمورۂ عالم میں عدل وانصاف الہی بنیادوں پر قائم ہو انسانوں کو خالق انسانیت کی مرضی کے مطابق حقوق ومراعات نصیب ہوں‘‘۔ (اسلام اور ابن عالم)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ الجھاد فی الاسلام میں رقمطراز ہیں:
’’ایسی جنگ کو جو ظالموں کے مقابلے میں اپنی مدافعت اور کمزوروں بے بسوں اور مظلوموں کی حفاظت کے لیے کی جائے اللہ نے اسے خاص راہ خدا کی جنگ قراردیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ جنگ بندوں کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہے اور بندوں کے اغراض کے لیے نہیں بلکہ خاص خدا کی خوشنودی کے لیے ہے اس جنگ کو اس وقت تک جاری رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک خدا کے بندوں پر دست درازی اور جبرو ظلم کا سلسلہ بند نہ ہوجائے اور فساد کا نام ونشان اس طرح مٹ جائے کہ اس کے مقابلے پر جنگ کی ضرورت باقی نہ رہے‘‘۔ (ص: 400)
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب اسلام کا نظریۂ جنگ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جہاد حریت فکر اور آزادی حق وصداقت کو زندہ کرنا ہے دنیاوی لڑائی اس لیے لڑی جاتی ہے کہ دنیا کا امن غارت ہوجائے اور حق وصداقت، خیر ومعروف کو دبادیا جائے مگر جہاد اسلامی اس لیے کیا جاتا ہے کہ دنیا میں حق پرستی وراست گوئی اور صداقت پسندی وحق کو شی پھلے اور پھولے اور کوئی طاقت حق کو روکنے والی باقی نہ رہے دنیوی لڑائی کذب وباطل او شر ومنکر کے فروغ کے لیے لڑی جاتی ہے لیکن جہاد اسلامی خیر وصداقت اور معروف وحق کے اثر ونفوذ اور استحکام وبقا کے لیے کیا جاتا ہے‘‘۔ (ص: 9)
گویا جہاد معاشرے سے ظلم واستحصال، جورو ستم اور نا انصافی و فتنہ و فساد کو ختم کرتا ہے۔ عدل و انصاف، حریت و آزادی کا مژدہ سناتا ہے۔

فضیلت جہاد
جہاد کی فضیلت کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے:
’’بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ا س کی راہ میں اس طرح متحد ہوکر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (سورہ صف: 4)
جو لوگ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے اور خوشنودی رب کے لیے دشمنان اسلام کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں تو اللہ کو ان کا یہ عمل بہت پسند آتا ہے۔
قرآن نے جہاد نہ کرنے والوں پر مجاہدین اسلام کی فضیلت کو بھی بیان کیا ہے، جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت کی وجہ سے اسے بڑا درجہ دیا گیا ہے۔
ا س کے علاوہ مختلف احادیث مبارکہ میں بھی جہاد کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص میرے راستے میں جہاد کرتا ہے میں اس کا ضامن ہوں اگر میں اس کی روح قبض کرتا ہوں تو اسے جنت کا وارث بناتا ہوں اگر واپس لوٹاتا ہوں تو ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ لوٹاتا ہوں‘‘۔ (ترمذی)
مجاہد فی سبیل اللہ پر انعامات خداوندی ہوتے ہیں جس کا وہ تصور نہیں کرسکتا اگر خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرتا ہے تو خالق کائنات سے جنت کی ضمانت لے لیتا ہے اگر وہ غازی بن کر واپس گھر آتا ہے تو اللہ اسے اجر عظیم سے نوازتا ہے الغرض مجاہد دنیوی واخروی زندگی میں ہر اعتبار سے انعامات الہیہ سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

اقسام جہاد
1۔ جہاد بالعلم:
جہاد کی ایک قسم یہ ہے کہ قرآن وسنت پر مبنی احکامات کے علم کی اشاعت کی جائے تاکہ کفر وجہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور پوری دنیا رشد وہدایت کے نورسے منور ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پس آپ ان منکروں کا کہنا نہ مانیے بلکہ قرآن ہی سے ان کا مقابلہ پوری قوت کے ساتھ کیجیے‘‘۔ (سورہ الفرقان: 52)
قرآن رشد وہدایت کا منبع ہے وہ ذہن انسانی کو علم معرفت اور شعور وآگہی کے اجالوں سے منور کرتا ہے۔
ارشاد ہے:
’’انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے‘‘۔ (سورہ المائدہ: 5)
جہاد بالعلم اعلیٰ درجہ کا جہاد ہے ایمان کی پختگی اور احکام خدا و رسول پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے کے لیے علم کا حاصل کرنا ضروری ہے جو اشاعت دین میں کام آسکے۔

ـ2۔ جہاد بالمال:
حق کی نصرت وحمایت ایمان کا تقاضا ہے تاکہ خدا کا دین غالب ہو اور ظلم وعدوان کا خاتمہ ہو۔ اس کے لیے مال ودولت خرچ کرنا ضروری ہے۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے عنداللہ بڑی عظمت کے حامل ہیں۔

ارشاد ربانی ہے:
’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا درجہ ہے وہی کامیاب ہیں‘‘۔ (سورہ التوبہ: 20)
جہاد بالمال کو بڑی اہمیت حاصل ہے تبوک کے موقع پر آپؐ کے ایک اعلان پر صحابہ نے اپنا مال آپؐ کے سامنے پیش کردیا۔
ـ3۔ جہاد بالنفس:
یہ اپنی نفسانی خواہشات سے مسلسل اور صبر آزما جنگ ہے یہ فکر وعقیدے کی پر اگندگی کے خلاف جہاد ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جو انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیوں کہ شیطان براہِ راست انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر نفس کا تزکیہ ہوجائے تو شیطانی وسوسوں سے بچا جاسکتا ہے۔ جہاد بالمال اور جہاد بالسیف کی نوبت تو کبھی کبھی آتی ہے لیکن جہاد بالنفس ہمیشہ جاری رہتا ہے تزکیہ نفس کے لیے ریاضت اور مجاہدے کے مشکل مراحل کو عبور کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’بے شک وہ شخص کامیا ب ہوگیا جس نے نفس کو پاک کرلیا اور بے شک وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے دبا دیا‘‘۔ (سورہ الشمس: 9-10)

ـ4۔ جہاد بالعمل:
جہاد بالعمل بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنّم بھی۔ عملِ صالح، کارگہ حیات میں انسان کے لیے روشنیوں اور آسودگیوں کا سبب بنتا ہے۔ بے عمل آدمی اعتبار اور اعتماد کی دولت سے محروم رہتا ہے لہٰذا اسلامی معاشرت وتہذیب میں عمل پر زور دیا گیا ہے۔ عمل کے بغیر زندگی جمود کا شکار ہوجاتی ہے اگر قرآن کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو آج پھر اہلِ ایمان دنیا کی امامت کے منصب جلیلہ پر فائز ہوسکتے ہیں۔

دہشت گردی
عصر حاضر میں دہشت گردی کا لفظ عام ہوچکا ہے لیکن اس کے صحیح معنیٰ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
دہشت کے لغوی معنیٰ خوف، ڈر اور خطرے کے ہیں۔
دہشت گردی کو ہندی میں آتنک واد، انگریزی میں (Terrorism) اور عربی میں ارھابیۃ کہتے ہیں۔ (فرہنگ تلفظ، شاہ الحق حقی)
دہشت گردی کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:
1۔تشدد کا ہر وہ عمل جس کے ذریعے سے کسی فرد یا جماعت کو کسی جواز کے بغیر خوف وہراس میں مبتلا کیا جائے یا اس کی جان ومال عزت وآبرو، دین اور عقیدے کو خطرے میں ڈالا جائے دہشت گردی ہے۔ خواہ یہ عمل فرد کی طرف سے ہو یا جماعت کی طرف سے ۔
2۔ہر ایسی حرکت جس سے سماج یا سماج کے کسی طبقے میں بے چینی اور خوف وہراس پیدا ہو دہشت گردی کہلائے گی۔
3۔مولانا عبدالحمید نعمانی کے بقول دہشت گردی بے قصور اور معصوم افراد کو ظلم وستم کا نشانہ بنانے کا نام ہے جس سے وہ ہراساں اور خوف زدہ ہوجائیں ایسا عمل، فرد قوم اور جماعت کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور ادارہ اور ملک کی طر ف سے بھی۔
4۔انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالے سے:
’’دہشت گردی سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر دہشت یا تشدد کا منظم استعمال ہے خواہ وہ حکومتوں کے خلاف ہو، عوام کے خلاف ہو یا افراد کے خلاف ہو‘‘۔
بہرحال دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں جو سب کو قبول ہو۔

دہشت گردی کی مختلف قسمیں ہیں:
1۔سیاسی، 2۔فکری، 3۔مذہبی، 4۔ثقافتی، 5۔سرکاری، 6۔انفرادی۔
دہشت گردی کے اسباب:
دہشت گردی کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔
1۔تنگ نظری اور عدم رواداری
2۔اپنے مذہب اور تہذیب کو زبردستی مْسلّط کرنے کی کوشش
3۔حق وانصاف سے انحراف
4۔مذہبی تعلیمات کی غلط تفہیم
5۔احساس محرومی
دہشت گردی کے ازالے کے لیے واحد صورت اسلامی تعلیمات پر عمل ہے۔ اسلام کی اہم تعلیمات میں عدل وانصاف کا قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت وپاسداری شامل ہے۔ دہشت گردی کے پیدا ہونے کا ایک سبب حقوق کی پامالی ہے اس کا تدارک بھی حقوق کی ادائیگی سے ہی ہوگا۔

جہاد اور دہشت گردی کا فرق:
آج مغربی میڈیا نے جہاد اور دہشت گردی کو خلط ملط کردیا ہے اور عوام الناس کو گمراہ کیا ہے جب عوام کے سامنے لفظ جہاد بولا جاتا ہے تو ذہن میں دہشت گردی کی تصویر آجاتی ہے کیونکہ ان کی ذہن سازی ایسی ہی کی گئی ہے۔ حالانکہ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بقول شاہ ولی اللہؒ:
’’جہاد انسانی جان کے احترام، امن وامان کے قیام، ظالم کی سرکوبی اور حق کی حمایت وحفاظت کے لیے ہے‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ)
اس کے برعکس سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی فتنہ وفساد کا نام ہے اور بے قصور انسانوں کے قتل کا مجرمانہ فعل ہے۔
اسلام میں امن وسلامتی ہے اسلام اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے جہاں اسلام ہوگا وہاں دہشت گردی نہ ہوگی اور جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہوگا۔