آج کی دنیا میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہو وہ ہوتا نہیں اور جو کچھ اصلیت ہو وہ سامنے نہیں آتی۔ پہلے مین اسٹریم میڈیا کا یہ معاملہ تھا اور اب سوشل میڈیا بھی اِسی روش پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔
سوشل میڈیا کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اس پر بالکل درست بات زیادہ مقبول نہیں ہو پاتی اور ہر ایسی بات راتوں رات لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو پسند آتی ہے جس میں رتی بھر سچ نہ پایا جاتا ہو۔
امریکی صدارتی انتخاب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسا بہت کچھ چل رہا ہے، بلکہ ٹرینڈ کر رہا ہے، جو کسی بھی اعتبار سے حقیقت پسندی کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ فیک نیوز کا بازار گرم ہے۔ جھوٹ، بلکہ سفید جھوٹ خوب چل رہا ہے۔ جعلی متن، تصاویر اور ویڈیوز کا بول بالا ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ معیار یہ ٹھہرا ہے کہ جو کچھ زیادہ چلے وہی کامیاب ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب کے نام پر سوشل میڈیا صارفین جی بھرکے کمارہے ہیں۔ ان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے صارفین سب سے آگے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم سیاسی اعتبار سے غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کا بھرپور فائدہ سیاسی عناصر بھی اٹھارہے ہیں اور صارفین بھی۔
ایکس کے صارفین کی اکثریت شیئرنگ کے ذریعے پیسے کمانے میں مصروف ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کون کتنی جھوٹی پوسٹیں اِدھر سے اُدھر کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کو پیسہ معیار اور درستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ لائیکس، شیئرنگ اور ٹرینڈنگ کی بنیاد پر ملتا ہے۔ متن اور تصویروں کے معیار کا کوئی سوال نہیں۔ سازشی تھیوری ڈالنی ہے تو ڈالیے۔ جھوٹی تصویریں ڈالنی ہوں تو ڈالیے۔ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔
سیاسی اور معاشرتی امور کے ماہرین نے اس صورتِ حال کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا ہے کیونکہ سیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو آزادانہ استعمال کیا جارہا ہے اور اس معاملے میں کوئی بھی کسی کو کچھ کہنے اور ٹوکنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی ماحول میں سنسنی پھیل رہی ہے، غلط فہمیوں کا بازار گرم ہے مگر کوئی اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے تیار نہیں۔