مظلوم کسان اور پنجاب حکومت کے دھوکے

207

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں تاریخ میں پہلی حقیقی کسان دوست کی شب و روز محنت رنگ لائے لانے لگی کہ پنجاب میں رائس کی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئندہ گندم پیداوار میں 30 فی صد اضافے کی پیش گوئی بھی کر دی گئی ہے اور پنجاب کے کاشت کار کو گندم کی فصل کی بوائی کے لیے بیج کھاد سمیت دیگر زرعی مداخل سستے دستیاب ہوں گے ان کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب میں روٹی، آٹا سب سے سستا ہونے کے علاوہ اشیاء بھی سب سے زیادہ سستی ہیں انہوں نے پنجاب سے مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ روٹی آٹا اور دیگر اشیاء کی قیمتیں خود چیک کریں اسی طرح حکومت پنجاب نے صوبہ میں ایک کروڑ 65 لاکھ ایکڑ پر گندم کی کاشت کرنے یا ہدف مقرر کیا ہے اور حکومت پنجاب نے واضح طور پر ہدایات جاری کی ہیں کہ سرکاری زرعی اراضی پر گندم کی کاشت کو لازمی قرار دیا گیا ہے حکومت پنجاب کے مطابق زرعی شعبے کی بہتری حکومت کی ترجیح ہے۔ (ہائے خوشی سے مر نہ جاتے اگر اس حکومت پر اعتبار ہوتا)

وزیر اعلیٰ پنجاب نے خود کو ایک بات پر مسلسل فوکس کر رکھا ہے پنجاب میں روٹی آٹا سب سے زیادہ سستا ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ پرائس کنٹرول کا باقاعدہ نظام علٰیحدہ محکمہ قائم کررہے ہیں عوام کو مہنگائی کی وجہ سے پہنچنے والی معاشی تکلیف کا ازالہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست ہے ویسے عوامی فلاح و بہبود کے ہر شعبے کو سر فہرست ہونا چاہیے روزانہ میڈیا پر مہنگائی میں کمی کا ڈیٹا آتا ہے لیکن مارکیٹ میں مہنگائی جوں کی توں ہی ہے اگر اشیاء کی قیمتوں میں استحکام اور گرانی کے خلاف اراکین اسمبلی کو نگرانی کرنے کا کہا گیا ہے تو پھر گرانی ناجائز منافع خوری کے لیے قائم کیا گیا نیا محکمہ پرائس کنٹرول کس کھیت کی مولی ہے؟ اس وقت پنجاب کے عوام سے شیخ چلی خیالات والے منصوبے ہی سننے کو مل رہے ہیں حکومت اور ان کے اراکین اسمبلی سے عوام خائف ہیں وہ عوام میں جانے سے گھبراتے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیارات ہی نہیں کہ وہ عوام کی داد رسی کرسکیں سب مالی انتظامی اختیارات وزیر اعلیٰ پنجاب صاحبہ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ آپ کی حکومت نے کسانوں کا جائز حق مار کر ان کو ناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچا کر ان کی گندم کو حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر گندم خریدی ہی نہیں آپ کی حکومت نے کسانوں کو دھوکا دیا آپ کے سابقہ وزیر خوراک بلال یاسین صاحب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ کسانوں سے حکومت پنجاب گندم خریدے گی اتنے لاکھ کسانوں نے باردانہ ایپ پر درخواستیں جمع کروا دی ہیں کسانوں کو ایپ کے ذریعے باآسانی باردانہ فراہم کریں گے پھر بارشوں کا بہانہ بنایا کہ گندم میں زیادہ نمی آجانے سے گندم کی خریداری نہیں کررہے اور گندم میں نمی ختم ہونے کے بعد گندم کی خریداری کا آغاز کر دیں گے اور جب گندم میں نمایاں نمی کے باوجود حکومت پنجاب نے خاموشی توڑی کہ وہ کسانوں سے گندم نہیں خریدے گی کسانوں کو اتنا بڑا دھوکا دیا گیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اوپر سے کہتے ہیں زراعت اور کسانوں کی خوشحالی حکومت پنجاب کی ترجیح ہے اسے کہتے ہیں چور مچائے شور۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا کہ پنجاب کے عوام سستی روٹی سے خوش ہیں عوام کو سستی روٹی کا حصول جاری رہے گا عوام سے عقیدت ان کا اوڑھنا بچھوڑنا ہے چلیں سستی روٹی لینے اور کھانے والے تو معزز عوام ہوگئے لیکن حکومت سے استفسار ہے کہ گندم کاشت کرنے والے کسان کس کیٹگری میں آتے ہیں او یاد آیا کہ کسان تو مافیا ہیں گندم کی فصل کے بعد حکومت پنجاب نے جنوبی پنجاب میں کپاس کی کاشت پر بہت زور دیا سیکرٹری زراعت پنجاب نے جنوبی پنجاب میں ڈیرے ڈال دیے ہر روز کپاس کی کاشت کے بارے میں طویل اجلاس ہوتے اور محکمہ زراعت کی جانب سے نوید سنائی گئی کہ حکومت پنجاب کی انتھک محنت اور کسان دوست پالیسیوں کے باعث اس مرتبہ پہلے سے زیادہ رقبے پر کپاس کی فصل کاشت کی جائے گی کسانوں کو مراعات دی جائیں گی بہترین کپاس کا بیج فراہم کیا جائے گا لیکن اس کا نتیجہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا وہ اس لیے کہ اس مرتبہ کپاس کی پھٹی جننگ فیکٹریوں میں 48 فی صد کم آئی ہے جو کہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہیں آگے آپ حکومت پنجاب کی کسان زراعت کی ترقی کی کارکردگی کا پول سب کے سامنے کھل کر آگیا ہے۔

اب آئندہ سیزن کے لیے گندم کی کاشت کا آغاز سندھ جنوبی پنجاب سے ہوچکا ہے راولپنڈی ڈویژن میں 14 لاکھ 91 ہزار ایکڑ۔ سرگودھا ڈویژن میں 17 لاکھ 40 ہزار۔ فیصل آباد ڈویژن میں 18 لاکھ 87 ہزار۔ گجرات ڈویژن 12 لاکھ 50 ہزار۔ گوجرانوالا ڈویژن 11 لاکھ 35 ہزار، لاہور ڈویژن 13 لاکھ 35 ہزار۔ ساہیوال ڈویژن 9 لاکھ 20 ہزار، ملتان ڈویژن 18 لاکھ 20 ہزار۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن 22 لاکھ 94 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کی کاشت کا ہدف مقرر کیا ہے اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسے طے کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت پنجاب کی جانب سے کسانوں کو کسان کارڈ کے اجراء کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ کسان رجسٹرڈ ڈیلر سے بلا سود زرعی مداخل خرید سکیں گے لیکن اس ملک میں المیہ یہ ہے کہ کسان کی فصل کو جب کھاد زرعی ادویات اور دیگر اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے مارکیٹ سے کھاد کو غالب کردیا جاتا ہے اور حکومت سرکاری اداروں کو سب معلوم ہوتا ہے کہ اس بلیک مارکیٹنگ میں کون سے مافیا ملوث ہیں لیکن کسان ہر بار ہارتا ہے اور مافیا پہلے سے زیادہ لیڈ کے ساتھ جیتتا ہے۔

حکومت اور سے وابستہ افراد کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں گندم کی کاشت کرنے پر کسان تذبذب کا شکار ہیں چاول کی فصل کی بھی کاشت کاروں کو مناسب قیمت نہیں مل سکی اور ان کی پیداواری لاگت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے گندم کے بعد چاول کی فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے پر کسان بہت پریشان ہے لیکن امپورٹ مافیا نے اس کی تیاری کر رکھی ہے کہ اگر گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہ ہو سکا تو گندم باہر سے منگوا لیں گے پریشانی کس بات کی ہے پہلے بھی تو یہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں حکومت پاکستان نے پچھلے سال پہلے گندم باہر بھیجی اور پھر مہنگی گندم ملک میں منگوائی سب کی موجیں ہوگئیں بیچارے غریب اور کسان مارے گئے۔ آج تک گندم اسکینڈل میں ملوث کردار شہباز شریف حکومت قوم کے سامنے نہیں لا سکی جنہیں عوام کی محبت کے بڑے مروڑ اٹھتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن جہاں بجلی کے ٹیرف میں کمی، کیپسٹی چارجز کے خاتمے آئی پی پیز کی لوٹ مار بند کرنے اور عوام کو بجلی بلوں میں ریلیف دلانے کے لیے میدان عمل میں ہیں اسی طرح حافظ نعیم الرحمن صاحب کسانوں کے ساتھ گندم کی فصل میں ہونے والی ناانصافی اور کسانوں کے حقوق کے لیے سربکف ہیں پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی پارٹی کسانوں کی حمایت میں سڑکوں پر نہیں آئی یہ اعزاز جماعت اسلامی کو ہے کہ وہ ہر مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی آواز بنتی ہے۔