قاضی فائز عیسیٰ ایک سال تک اپنی طاقت کے ہتھوڑے اور ہتھوڑے کی طاقت کے کمالات دکھا کر تاریخ اور وقت کی وادیوں میں گم ہوگئے۔ کیا واقعی وہ تاریخ کی وادیوں اور صفحات میں گم ہو گئے؟ شاید ایسا نہیں وہ پاکستان میں عوام کے حق حاکمیت، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے تاریخ میں ایک مثال کے طور پر زندہ رہیں گے۔ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ مثال کسی مثبت حوالے کے طور پر استعمال نہیں ہوا کرے گی۔ مؤرخ سرشام ہی واٹس ایپ پر آنے والے بیانیوں کی جگالی کرنے والوں کی طرح سطحی اور وقتی مفاد کا اسیر نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنے فیصلے سنانے اور رائے قائم کرنے میں بے رحم ہوتا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے ستتر سالہ تاریخ کے ایک اہم موڑ پر جب پاکستان میں یہ طے ہونے کے لمحات آگئے تھے کہ پاکستان نامی ملک کی جغرافیائی حدود کے اندر اس کے پچیس کروڑ شہریوں کا مقام کیا ہے چڑیا کی مانند پھدک کر لکیر کی غلط سمت میں جا کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ طے ہورہا تھا کہ پاکستان کو اگلے ستتر برس میں بھی یونہی قرضوں کی شراب کی مستی میں غرقاب رہ کر اپنا حلیہ یونہی بگاڑنا ہے یا آزاد رزق اور آزاد اُڑانوں کی طرف جانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس ریاست کا نام رکھ چھوڑا ہے پچیس کروڑ انسانوں کا مسکن ہے اور پاکستان کے قیام سے ہزار ہا سال پہلے کی ثقافتوں تہذیبوں اور اکائیوں پر مشتمل ایک مشکل وفاق ہے۔ ان میں ہر ثقافت اور اکائی اپنے ایک الگ اور بھرپور وجود رکھتی ہے۔ ایک مکمل تاریخ اور تاریخی ہیروز اور ولن رکھتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ہر سال کروڑوں لوگ سن ِ شعور کو پہنچتے ہیں اور یہ لوگ جدید ذرائع ابلاغ سے لیس ہوتے ہیں اور اپنے پُرکھوں سے زیادہ باوسیلہ زیادہ باشعور اور عصر حاضر کا زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ یہ کھلونوں سے بہلنے والی نسل نہیں۔ ایک ایسا ملک جو کئی اطراف سے ایسے ہمسایوں میں گھرا ہوا ہے جن میں دنیا کی دوممتاز معیشتیں چین اور بھارت شامل ہیں۔ ساتھ میں ایران اور افغانستان ہیں جو دنیا کی دو معتوب معیشتیں ہیں۔
ایران انقلاب کے بعد ہی سے امریکا کی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے اور افغانستان تو دہائیوں کی خانہ جنگی اور بیرونی مسلط کردہ جنگوں کے باعث زخم زخم اور گھائل ہے۔ ایران تیل کی دولت سے مالا مال ہے اس لیے وہ مغربی پابندیوں کو بے اثر بنا کر اپنی معیشت کو سنبھالا دیے ہوئے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے افغانستان ایک ملیشیا طرز حکمرانی کے اندر رہتے ہوئے پہلے امن قائم کرنے میں کامیاب رہا اور اس کے بعد سے خالص دیسی اسٹائل میں کسی آئی ایم ایف کے جھنجٹ میں پڑے بغیر معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو گیا۔ بات بین الاقوامی قبولیت اور قرضوں اور آئی ایم ایف کی تصدیقی سند کی تو نہیں بلکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری اور استحکام کی ہے۔ ابھی چند ہی برس پہلے کی بات ہے جب امریکی پاکستان کو افغانستان کے ساتھ بریکٹ کرنے کے لیے ’’افپاک‘‘ یعنی افغانستان اور پاکستان نام سے ایک اصطلاح گھڑنے کے بعد ادارے بنانے لگے تھے تو ہم بڑے بول بولتے تھے کہ ہمارا مقابلہ اور موازنہ تو بھارت سے کیا جا سکتا ہے افغانستان خانہ جنگی کا شکار سول اسٹرکچر سے محروم ایک ملک ہے جس میں نہ منظم فوج اور جدید اسلحہ اور کارخانے اور کوئی دوسری ترقی بھلا ایسے ملک کو افپاک کے نام پر پاکستان کے ساتھ ایک دائرے میں رکھنا صرف دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی توہین ہے مگر وقت یوں پلٹا ہے کہ وہ افغانستان بڑی حد تک امن وامان کی نعمت سے بہرہ مند ہوچکا ہے اور اس کے اثرات اس کی معیشت پر نمایاں طور پر مثبت انداز سے مرتب ہورہے ہیں اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی معیشت کی رونقوں کا سارا انحصار اور دارومدار آئی ایم ایف کے قرض اور پھر اس سے جڑی دوسرے مالیاتی اداروں کی عنایتوں پر ہے۔
ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ معاشی غلام نسلیں پیدا کرنے کو معیشت کا استحکام قرار دے کر اِترانے کا عمل بھی پوری قوت سے جاری ہے۔ لمحہ ٔ موجود کو قرض کے ذریعے اچھے انداز سے گزارنے کو معیشت کی بہتری قرار دینا حکمران ذہن کی نفسیات بن چکی ہے۔ سیاست کا حال تو ناقابل بیان ہے۔ ان تمام وجوہات نے لوگوںکو طرز کہن سے نالاں اور ناراض کر دیا ہے۔ نازک موڑ، قومی مفاد، غداری، بدتمیزی جیسی فرسودہ اصطلاحات جن سے مخالف کی آواز بند کی جاتی تھی اب بے کار اور بے اثر ہو رہی ہیں۔ اس ملک میں یہ سوال اُٹھتا رہا ہے کہ یہاں کروڑوں انسانوں کا کیا مقام ہے؟ ریاست کے سارے وسائل ایک مخصوص کلاس کے لیے کیوں مختص اور محدود ہیں؟۔ اس بار لوگ زیادہ شدت سے سوالات پوچھ رہے ہیں۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ آپ ہمیشہ کے لیے سیاہ کو سفید کہیں تو لوگ اسے مان لیں۔ کبھی کبھار لوگوں کی اطاعت تسلیم ورضا کا پیمانہ ٔ لبریز ہو کر چھلک پڑتا ہے اور اب یہ پیمانہ چھلک پڑا ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ہی مادر ادارے عدلیہ کی کشتی میں چھید کرکے حالات اور طاقت کے پانیوں کے اس کے اندر جمع ہو کر غرقاب کرنے کا سامان کیا۔ اس سے حرماں نصیب زمین زادوں کا سفر تھوڑا طویل ہوگیا۔ کچھ تو تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ عہدے اور منصب سے الگ ہونے کے اگلے لمحے ہی بیرونی اداروں میں لیکچر دینے جہاز میں بیٹھ کر چل دیے۔ اس کو دیکھ کر سابق وزیر اعظم شوکت عزیز یاد آئے جو مشرف دور میں وزیر خزانہ اور وزیر اعظم بن کر قوم کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ جنرل مشرف کے ہر قسم کے اقدامات کے شارح اور وکیل بنے رہے۔ جب اقتدار سے فارغ ہوئے تو اپنا بریف کیس تھامے جہاز میں بیٹھ کر کسی دور دیس سدھار گئے۔ شوکت عزیز کی اس انداز سے رخصتی میں پاکستانیوں کے لیے ایک تضحیک اور طنز کا پہلو بھی تھا کہ وہ صرف اس وقت تک اس ملک کی حدود میں رہے جب تک کہ ان کی نوکری اور معاہدے کا تقاضا تھا اس سے ایک دن زیادہ یہاں گزارنا انہوں نے اپنی توہین سمجھا۔ شوکت عزیز تو دوسرے دن بیرون ملک سدھار گئے تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے تو شاید چند گھنٹے بھی عہدہ ومنصب کے بغیر اس ملک میں گزارنا گوار ا نہیں کیا اور عام پاکستانی فقط یہ کہتا رہ گیا
تم تو ٹھیرے پردیسی ساتھ کیا نبھائو گے
صبح پہلی گاڑی سے گھر کو لوٹ جائو گے