لیڈروں سے بھیڑیا اچھا

203

ملک میں قائدین کی نہیں لیڈروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ بقول شخصے جس کے گھر میں دو دانے اُس کے پاگل بھی سیانے۔ ان لیڈروں کی جو اشرف مخلوقات کے لیڈر ہونے کے دعویدار ہیں اونٹ کی طرح ان کی کوئی کل سیدھی نہیں بلکہ یہ تو اونٹ کی خصلت سے بھی گئے گزرے ہیں، اونٹ تو ایک بار پیٹ بھرنے کے بعد کئی روز بھوکا پیاسا اپنے مالک کو صحرا کے پرافتادہ علاقے سے منزل تک راستہ طے کرالیتا ہے، یہ لیڈر تو جوئے البقر کے مریض ہیں ان کا گائے کی طرح پیٹ نہیں بھرتا ہے، مال منال کے لیے یہ ہر وقت جگالی کرتے ہیں اور پھر بھی ان کی زبان کتے کی طرح بہرصورت لٹکی رہتی ہے، کتا تو مالک کا وفادار تو ہوتا ہے مگر ان لیڈروں کی وفاداری اپنے مفاد سے ہوتی ہے۔ قوس و قزاح کی طرح رنگ بدلتے ہیں ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں، اپنے قول سے پھنس جائیں تو سندھی زبان کے مقولے کو دہرا دیتے ہیں ’’زبان آھی چم جی کہہ نہ کم جی‘‘، یعنی زبان کھال کی ہے جو کسی کام کی نہیں ہے۔ لومڑی کی طرح چالاک ہیں کوئی سخت مرحلہ آجائے تو لومڑی والا کام ہوجاتا ہے اور چمگادڑ کی طرح یہ کہہ دیتے ہیں ہم چرند بھی ہیں پرند بھی، ہم تماش بین ہیں جو جیت جائے ہم اُسی کے ہیں، یہ مور کی طرح بن ٹھن کر خوب صورت رہتے ہیں اور اس خوب صورتی ہی کو کیش کراتے ہیں۔ مال بٹورتے ہیں، گدھ کی طرح مردار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور ان کا پیٹ اُس مردار خور کی طرح بھرتا نہیں ہے اور حل من مزید کی صدا لگاتے ہر در پر نظر آتے ہیں۔ ان پر ڈگریوں کا بوجھ یوں ہی لدا ہوتا ہے جیسا گدھے پر کتابوں کا ہوتا ہے۔ علم لاحاصل کے حامل یہ لیڈر ہیں عمل سے کاسہ خالی ہے، یہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہیں مگر کہلاتے لیڈر ہیں ان سے بھیڑیا ہی اچھا ہے جو شکاری ضرور ہے وہ کبھی اپنی آزادی پر سودا ہرگز نہیں کرتا یہ تو ملک تک بیچ کر فخر کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں اور بھیڑیا تو غلامی پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ لیڈر اغیار کی، کفار کی غلامی پر پھولے نہیں سماتے ہیں۔ بھیڑیا مردار نہیں کھاتا، ذخیرہ اندوز نہیں ہوتا ہے مگر یہ کتا بلی سب اپنی منطق سے حلال کرلیتے ہیں۔ بھیڑیے میں خودداری اور وفاداری کی اعلیٰ وصف پائی جاتی ہے اور لیڈر مروجہ خودی بیچ کر نام پیدا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ عزت تو آنے جانے والی چیز ہے کیا فرق پڑتا ہے۔

بھیڑیے کو ابن البار بھی کہتے ہیں جس کا مطلب نیک اولاد یہ بوڑھے والدین کی نیک اولاد کی طرح فرمانبرداری سے خدمت کرتے ہیں مگر لیڈر صاحبان والدین کو بوجھ، رکاوٹ مقاصد قرار دے کر کونے کھدرے میں پٹخ دیتے ہیں، بھیڑیا ہمیشہ سوتے وقت بھی ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے اور جب ایک آنکھ کی نیند پوری کرلیتا ہے تو پھر دوسری آنکھ کی نیند پوری کرتے ہیں جب ملکی لیڈروں کا یہ حال ہے کہ یہ دونوں آنکھیں موند کر ایسے سوتے ہیں کہ بڑے سے بڑے سانحہ سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں جب کوئی جھنجھوڑتا ہے اور احساس دلاتا ہے تو کہتے ہیں مٹی پائو۔ بھیڑیا حملہ آوروں یا مداخلت کاروں کے خلاف شدید مزاحمت کرتا ہے، اس بھیڑیے کو جس کو بُرا سمجھا جاتا ہے اس کے قائد کا انتخاب باقاعدہ باہمی مشاورت سے ہوتا ہے جس کے لیے سب سے بہادر، وفادار، قائدانہ صلاحیت والے بھیڑیے کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ہمارے لیڈر موروثی ہیں، والد کے ترک میں لیڈر شپ پاتے ہیں اور اس اہم ذمے داری کے سلسلے میں بھیڑیے کی عقل سے بھی گئے گزرے ہیں، بھیڑیے کا قائد الف کہلاتا ہے جس کا عربی میں مطلب ایک ہزار ہے یعنی ایسا بھیڑیا جو اکیلا ایک ہزار کے برابر ہو جبکہ لیڈر کا انتخاب موروثی اور وہ بھی فن کار کے طور پر ہوتا ہے۔ جانوروں کی خصلت سے بھی عاری ہمارے لیڈر اور حکمرانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وہ حال کردیا جو دشمن بھی نہیں کرپاتے۔ کاش ملک کو اشرف مخلوقات انسان کہلانے والے قائدین کی حکمرانی میسر آتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اب بھی بچے کھچے پاکستان کی بقا اس میں ہے کہ جانوروں سے بدتر لیڈروں سے نجات پا کر ملک کی زمام کاز متقی، صالح، صاحب حکمت و بصیرت قائدین کے ہاتھوں میں دے دی جائے یہی بقا کا راستہ بچا ہے۔ ہم تو ملک میں جنگل کے دستور پر بھی نہ چل سکے۔