چھبیسویں آئینی ترمیم کی روشنی میں سنیارٹی کے بجائے نئے طے شدہ طریق کار کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے نامزد شدہ عدالت عظمیٰ کے نئے منصف اعلیٰ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہفتہ کے روز ایوان صدر میں حلف اٹھانے کے بعد باقاعدہ اپنا منصب سنبھال لیا ہے۔ پیر 28 اکتوبر کو بطور منصف اعلیٰ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس شاہد بلال کے ہمراہ بنچ نمبر ایک میں مقدمات کی سماعت کی اور سوا گھنٹے میں ریکارڈ 24 مقدمات کی سماعت مکمل کر لی۔ مجموعی طور پر انہوں نے تیس مقدمات کی سماعت کی جن میں سے چھے مختلف وجوہ کی بنا پر ملتوی کیے گئے۔ پیر کے روز عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ اجلاس بھی منعقد ہوا جس کے لیے عدالت عظمیٰ کے سینئر جج حضرات کی طرف سے طویل عرصہ سے زور دیا جا رہا تھا مگر سبکدوش ہونے والے منصف اعلیٰ جسٹس (ر) قاضی فائز عیسیٰ نامعلوم وجوہ کی بناء پر اسے مسلسل ٹالتے چلے آ رہے تھے یہ امر خوش آئندہ ہے کہ نئے منصف اعلیٰ نے منصب سنبھالنے کے فوری بعد اولین ترجیح کے طور پر فل کورٹ اجلاس منعقد کیا اس اجلاس کی کامیابی کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں عدالت عظمیٰ کے تمام فاضل جج صاحبان نے شرکت کی عدالت کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے، تاہم انہوں نے بھی اجلاس کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار نے عدالت میں مقدمات کے بوجھ اور وقت پر مقدمات کے فیصلوں کے بارے میں اجلاس کو آگاہ کیا انہوں نے بتایا کہ اس وقت 59191 مقدمات زیر التوا ہیں۔ رجسٹرار نے جسٹس منصور علی شاہ کا تیار کردہ کیس مینجمنٹ پلان پیش کیا۔ پلان میں معیارات واضح کرنا، تمام اقسام کے مقدمات کے موثر انتظام کے لیے آئی ٹی کا استعمال شامل ہے۔ کیس مینجمنٹ پلان کا جائزہ لیتے ہوئے ججوں نے مختلف حکمت عملیوں پر غور کیا۔ ججوں نے نظام میں بہتری کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ ججوں نے مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے عزم کو اجاگر کیا۔ جسٹس منظور علی شاہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے مزید تجاویز دیں۔ تجاویز کا مقصد مقدمات کا بوجھ کم کر کے ابتدا میں ایک ماہ کی لیے عدالتی کارکردگی میں بہتری لانا ہے۔ اس کے بعد 3 ماہ اور 6 ماہ کے منصوبے پر عملدرآمد ہو گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے تمام ججوں کا شکریہ ادا کیا۔ چیف جسٹس نے کیس مینجمنٹ پلان کے مکمل نفاذ کے عزم کا اظہار کیا۔ پیش رفت کا جائزہ اگلے فل کورٹ اجلاس میں لیا جائے گا جو 2 دسمبر 2024ء کو منعقد ہو گا۔ نئے منصف اعلیٰ جسٹس یحییٰ آفریدی کے پیش رو جسٹس (ر) قاضی فائز عیسیٰ نے جب منصف اعلیٰ کا منصب سنبھالا تھا تو قوم کو ان سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں مگر اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ ان سے وابستہ یہ توقعات پوری نہ ہو سکیں بلکہ صورت حال پہلے سے بھی بدتر اور شدید بگاڑ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ان کے دور میں ملک کی عدلیہ اعلیٰ ترین سطح پر جس طرح دھڑے بازی اور گروہ بندی کی شکار رہی اس سے عدالت عظمیٰ کی ساکھ، عزت اور وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ ان کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے بعض فیصلوں سے عدلیہ حکومت وقت کے مفادات کا تحفظ کرتی دکھائی دی اور عدالت کی بالادستی اور غیر جانبداری و خود مختاری کے تصور کو زبردست دھچکا لگا، حکومت نے ان کے عدالت عظمیٰ کی سربراہی کے دور کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جب اس میں ناکام رہی تو 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی مرضی کے جج کو عدالت عظمیٰ پر مسلط کرنے کی خاطر سینئر ترین جج کے منصف اعلیٰ بننے کے اصول کو تبدیل کرکے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے منصف اعلیٰ کے تقرر کا طریق کار متعارف کرایا اور عدالت عظمیٰ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے تیسرے نمبر کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو منصف اعلیٰ مقرر کر کے ارباب اختیار نے اپنی دانست میں عدالت عظمیٰ کے ماضی قریب کے کردار کو مستقبل میں بھی جاری رکھنے بلکہ اس سے بھی کمزور تر حیثیت میں لا کر اپنے تابع مہمل کے طور پر کام لینے کی زبردست اسکیم پر عمل کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ کو شاید اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اور اس کی عدلیہ کی بہتری مقصود ہے کہ حکومت کے تمام تر حربے ناکامی سے دو چار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کو منصف اعلیٰ مقرر کر کے حکمرانوں نے ان سے جو توقعات وابستہ کی تھیں اور حزب اختلاف کو اس حکومتی اقدام سے جو خدشات در پیش تھے اور جن کے پیش نظر تحریک انصاف کے بعض اہم رہنمائوں نے انہیں منصف اعلیٰ تسلیم نہ کرنے کے اعلانات کیے تھے۔ صورت حال ان تمام توقعات اور خدشات کے برعکس کچھ اور ہی رخ اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ توقع یہ بھی کی جا رہی تھی کہ جسٹس یحییٰ آفریدی سے سینئر دونوں جج حضرات ان کی قیادت میں کام کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے جب کہ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی درپیش حالات کے پیش نظر خود ہی یہ منصب قبول کرنے سے معذرت کر لیں گے مگر ان سب جج حضرات نے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور معاملات کو ذاتی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے ملک و قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت و تدبر کو جذباتیت پر ترجیح دی اور مل جل کر چلنے اور اعلیٰ عدلیہ کی عزت و وقار کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا چنانچہ دو طرفہ مثبت پیش رفت اور باہمی تعاون کے اچھے اثرات چند دن ہی میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تقسیم اور گروہ بندی کا تاثر تیزی سے زائل ہو رہا ہے زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کر کے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے اور کم سے کم وقت میں انصاف کی فراہمی کا جو جذبہ دیکھنے میں آیا وہ یقینا قابل ستائش ہے اور اس کے نتیجے میں ہماری عدلیہ کی عزت وقار، میں اضافہ ہو ۔