مدارس دینیہ کے طلبہ کی اسناد کا مقدمہ

281

23، 24، 25 ستمبر 2024 کو اسلام آباد میں مدارس دینیہ کے طلبہ کی ترجمان تنظیم جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کی مرکز مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاں جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان مدارس دینیہ کے طلبہ کی تعلیم وتربیت، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مختلف نوعیت کی ورکشاپس و کورسز کراتی ہے، مسلک پرستی کے بجائے باہم ہم آہنگی اور مشترکات پر جمع ہونے کے کلچر کو پروان چڑھاتی ہے، اتحاد امت کا درس دیتی ہے وہیں دستور میں طریقہ کار کے پانچویں نکتے کے مطابق مدارس کے طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرتی ہے لہٰذا یہ طے کیا گیا کہ آئندہ دو ماہ پر مشتمل ماہ اکتوبر و نومبر میں ملک گیر ’’اتحاد طلبہ مدارس‘‘ مہم چلائی جائے گی۔

مدارس کے طلبہ کی صرف آخری سند شہادۃ العالمیہ کو ایم اے عربی و اسلامیات کی ایکولنس ملتی ہے اور وہ بھی صرف تعلیمی مقاصد کے لیے۔ یعنی اس ایکولنس کی بنیاد پر آپ قانوناً اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں یا ان دو مضامین میں کالج و یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں جبکہ عملاً ادارے اس ایکولنس پر بی اے کی ڈگری و دیگر شرائط لگا کر غیر موثر کردیتے ہیں۔ عربیہ کا یہ مطالبہ ہے کہ یہ صرف تعلیمی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ ہرطرح کی اہلیت کے لیے قابل قبول ہونی چاہیے جیسے عام یونیورسٹیوں کی ایم اے ہوتی تھی۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ 2018 سے بی اے اور 2020 سے ایم اے کی ڈگری ختم کردی گئی ہے۔ اب ایم اے، بی اے نام کی کوئی ڈگری پاکستان میں نہیں چل رہی جبکہ مدارس کے طلبہ کو آج 2024 میں بھی ایم اے ایکولنس دیا جارہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جس طرح آپ نے پورے نظام تعلیم کو بی ایس اور ایم ایس کے نظام میں تبدیل کردیا ہے مدارس کے طلبہ کو بھی ایم اے کی مساوی ڈگری کے بجائے بی ایس ایکولنس جاری کی جائے۔

سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ عامہ، خاصہ، عالیہ اور عالمیہ کا امتحان دیتے ہیں عامہ جسے میٹرک کے برابر، خاصہ جسے انٹر کے برابر اور عالیہ جسے بی اے کے برابر تسلیم کیا جانا چاہیے لیکن ان کی حیثیت سوائے شہادۃ العالمیہ کی بنیاد پر ایم اے ایکولنس حاصل کرنے کے اور کوئی حیثیت نہیں ہے لہٰذا ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ان کی مساوی حیثیت تسلیم کی جائے اور بغیر کسی اضافی شرط کے تسلیم کی جائے۔ اگر قومی تعلیمی پالیسی کے نام پر بعض لازمی مضامین کے امتحانات لینے کی ضرورت گورنمنٹ محسوس کرتی ہے تو ہمارے اپنے بورڈز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ان مضامین کو اپنے نصاب کا حصہ بنائیں اور گورنمنٹ مدارس کے وفاقوں کے اپنے امتحانات پر اعتماد کرتے ہوئے ایکولنس جاری کرے۔ ایسا نہ ہو کہ مدرسے کا طالبعلم جو ذیلی اسناد کی ایکولنس حاصل کرنا چاہتا ہو پہلے اپنے وفاق اور پھر گورنمنٹ کے تحت علٰیحدہ سے امتحانات دے یہ ایک ہے دہری مشکل ہے جس سے مدرسے کے طالبعلم کو نکالا جائے۔

بعض احباب کی جانب سے یہ بات آرہی ہے کہ یہ آپ کا نہیں بلکہ مدارس کے وفاقوں یا گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ واقعی ہمارا کام اپنی تعلیم وتربیت پر توجہ دینا ہے اور ہم یہی کرنا چاہتے ہیں لیکن ۷۷ سال گزرنے کے باوجود ہماری ڈگری کو وہ مقام نہیں دلوایا جاسکا جو اس کا مناسب حق تھا لہٰذا اب ۷۷ سال گزرنے کے بعد طالبعلم کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنے وفاقوں اور گورنمنٹ سے یہ مطالبہ کرے کہ ہم جس نظام تعلیم میں پڑھتے ہیں اسے تسلیم کیا جائے۔ اور اب مزید اس معاملے سے لاتعلق رہنا ہمارے لیے اس وجہ سے بھی ممکن نہیں ہے کہ اس پر مدارس کے طلبہ کا مستقبل منحصر ہے۔

پاکستان میں کم و بیش ۳۵ ہزار مدارس اور ان میں چالیس لاکھ طلبہ پڑھ رہے ہیں۔ جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان نے یہ فیصلہ کیا کہ ماہ اکتوبر و نومبر میں ہم مدارس کے طلبہ کی آواز بنیں گے اور ’’اتحاد طلبہ مدارس‘‘ مہم کے ذریعے سے مدارس اور طلبہ کے مسائل کو اجاگر کیا جائے گا اور دینی مدارس، علما اور بورڈز کو متحد کرکے اپنے مسائل کو حل کروانے کی جدوجہد کی جائے گی۔ ۵۲ ستمبر کو مرکزی مجلس شوریٰ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے طلبہ کے مسائل کو عوام کے سامنے رکھا۔

اس کے بعد اس ایک ماہ کے مختصر عرصے میں کراچی، ملتان، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور مظفرآباد کے مرکزی قیادت نے سفر کیے اور پریس کانفرنس اور گول میز کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جس کے ذریعے مدارس کے طلبہ کی اسناد و دیگر مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ گول میز کانفرنسوں میں تمام مدارس کے وفاقوں کے نمائندے، علما و طلبہ کے ترجمان، صحافی و ماہرین تعلیم و ماہرین قانون نے شرکت کی۔ جہاں مسئلے کی سنجیدگی کا احساس دلایا گیا اور سب نے اس بات کا اظہار کیا کہ عربیہ نے بروقت اور بالکل ٹھیک مسائل کی نشان دہی کی ہے اور ان کو مشترکہ حل کرنے کی جدوجہد کی جانی چاہیے۔ اس وقت جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کا کارکن اس پیغام کو اجاگر کرنے اور تمام طلبہ و علما کو متحد و متفق کرکے متحدہ لائحہ عمل کے لیے علما و طلبہ تک یہ پیغام پہنچا رہا ہے۔

مدارس کی آخری سند شہادۃ العالمیہ کو ایم اے ایکولنس کے بجائے بی ایس ایکولنس جاری کیا جائے۔

مدارس کی ایکولنس کو صرف تعلیمی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ ہر طرح کی اہلیت کے لیے قبول کیا جائے۔
(جاری ہے)