بلاول ماموں بن گئے۔۔

210

اب سے چار پانچ دن قبل ہم نے ایک مضمون ’’کیا بلاول زرداری وزیر اعظم بن رہے ہیں‘‘ لکھا تھا جن لوگوں نے یہ مضمون پڑھا ہو یا جنہوں نے نہ بھی پڑھا ہو ان سے گزارش ہے کہ آج کے مضمون کے عنوان کو سابقہ مضمون کے تسلسل یا تناظر میں دیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ اس عنوان کی وجہ تسمیہ وہ خبر ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بلاول کی بہن بختاور کے یہاں تیسرے بیٹے کے پیدائش ہوئی ہے اس طرح بلاول اپنے تیسرے بھانجے کے (یا تیسری دفعہ) ماموں بن گئے اور آصف زرداری تین نواسوں کے نانا بن گئے ویسے تو بلاول زرداری پہلے ہی دو مرتبہ (دو بھانجوں کے) ماموں بن چکے ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلاول کے تینوں بھانجوں کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین اس بات کو یہیں روکتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ ہم نے پچھلے مضمون میں کیا لکھا تھا اور اب ہمارے کچھ صحافی، دانشور اور سیاستداں کیا کہہ رہے ہیں۔

’’26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بلاول زرداری کے اچانک فعال ہوجانے پر ایک محتاط تبصرہ کسی نے یہ کیا کہ شہباز شریف کے بارے میں ایک تاثر یہ تو پایا جاتا ہے کہ بہت اچھی اطاعت کرنے والے فرد ہیں لیکن انہوں نے کچھ ڈیلیور کرکے نہیں دیا اس لیے ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب کو یہ اشارے ملے ہوں کہ اگر چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو بلاول زرداری کے بارے میں کچھ سوچا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پیپلز پارٹی کو یہ تو معلوم ہے کہ وہ انتخابات جیت کر وفاق میں تو کبھی حکومت تو نہیں بنا سکتی وہ عملاً صوبہ سندھ کی جماعت بن کررہ گئی ہے اس لیے وہ اب مقتدر قوتوں سے جوڑ توڑ کرکے ہی وفاق میں کوئی مرکزی عہدہ حاصل کرسکتی ہے‘‘۔

آگے چل کر ہم نے لکھا تھا کہ: ’’15 اکتوبر کو بلاول زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے بلاول ہائوس میں کم و بیش چارگھنٹے تک مذاکرات کیے جس کا نتیجہ میڈیا کو یہ بتایا گیا پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں ترمیم کے حوالے سے اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ دوسرا اشارہ ہے بلاول کے وزیر اعظم بنائے جانے کا۔ پہلا اشارہ تو ان کا تحرک، دوسرا مولانا کا مان جانا میرا ذاتی خیال ہے اس کے لیے بلاول بہت کچھ پیچھے ہٹے ہوں گے اور مولانا نے بھی اپنے مستقبل کے خوشگوار جھونکوں کی سرسراہٹ میں کچھ لچک کا مظاہرہ کیا ہے‘‘۔ مضمون کا آخری پیراگراف کچھ اس طرح کا تھا۔

’’چلتے چلتے ہم آج 17 اکتوبر کی صبح ہی نکلنے والے ایک اخبار ریاست کی شہ سرخی یہ کہہ کر لکھ رہے ہیں کہ دروغ بر گردن ریاست… کہ بلاول زرداری وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن صدر ہوں گے ن لیگ کو شدید تحفظات ہیں نواز شریف کو خدشہ ہے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کی انتخابی نشست اوپن کردی جائے گی‘‘۔

اب اسی حوالے سے کچھ سیاستدانوں اور کچھ صحافی و دانشور حضرات نے جو کہا اور لکھا ہے وہ پیش کرتے ہیں۔ بدھ 23 اکتوبر کے اخبار میں جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کے ایک بیان کی سرخی ہے کہ: ’’مستقبل قریب میں حکومت سازی کا نیا منظر آسکتا ہے‘‘۔ آگے وہ کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم کے ذریعے اتحادی حکومت میں پی پی پی کی سربراہی میں نئی صف بندی کرلی گئی ہے مسلم لیگ سے جو کام لینا تھا وہ لیا جا چکا۔

ملک کے معروف صحافی اور دانشور سہیل ورائچ پیر 21 اکتوبر کو اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔ ’’بظاہر مقتدرہ اور شہباز حکومت میں اس وقت گاڑھی چھن رہی ہے۔ شہباز حکومت مقتدرہ کی اس وقت تک مجبوری ہے جب تک تحریک انصاف کی طاقت ٹوٹ نہیں جاتی جونہی تحریک انصاف کا خطرہ کم ہوگا شہباز حکومت کے خلاف تین نکاتی چارج شیٹ کا ڈھول دھیمے سروں میں بجنا شروع ہو جائے گا۔ پہلا نکتہ سیاسی بیانیے کی عدم موجودگی اور مقتدرہ کو عوامی حمایت فراہم نہ کرنا، دوسرا نکتہ فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کی ہر وزیر کے راستے میں رکاوٹیں اور عملدرامد نہ کرنے کا بڑھتا ہوا الزام، تیسرا نکتہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں رابطے کا فقدان اور متضاد راستوں پر چلنا، میرا ناقص تجزیہ یہ ہے کہ اگر واقعی یہ چارج شیٹ سیاسی حکومت اور مقتدرہ کے تعلقات میں دراڑ ڈالتی ہے تو پارلیمان کے اندر سے ہی قومی حکومت کی راہ ہموار ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس قومی حکومت میں کمزور تحریک انصاف، ناکام ن لیگ، مقتدرہ کی دو فیورٹ سندھی جماعتیں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور دوسری جماعتیں شامل ہوں گی۔ یہ حکومت دو سال کے لیے بننے کا امکان ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس قومی حکومت کے متوقع وزیراعظم کا نام ایک اہم وفاقی وزیر، بلاول زرداری اور شاہد خاقان عباسی میں سے کسی ایک کا ہوسکتا ہے‘‘۔

منگل 22 اکتوبر کو معروف دانشور ڈاکٹر مجاہد منصوری لکھتے ہیں۔ ’’اور ہاں بلاول چاند سنو تم نے جو اپنی ہمت، پختہ ارادے اور گمراہ و گستاخ سوشل میڈیا سے جلی کٹی اوئے توئے پر آنکھیں بند کرتے جس طرح ایسے سیاسی تجزیوں اور نام نہاد رائے عامہ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اصلاح عدلیہ کا ’’چن چڑھایا‘‘ ہے اس پر شہباز حکومت تمہارے شانہ بشانہ تھی اور ہے دونوں نے مل کے یہ کار عظیم انجام دیا ہے۔ حوصلہ قائم رکھو تم سے بڑھ کر ن لیگی گھاگ انکلز کے بھاگ تمہارے ساتھ ہیں جو کام اپنی صفوں میں بے وفائی بڑھنے کے ڈر سے حکومت اور ن لیگ نہیں کرسکتی تھی وہ تم ببانگ دہل کر گزرے۔ ہاں۔۔ ہوشیار رہنا جو وہ کرسکتے ہیں تم آسانی سے نہ کر پائو گے تمہاری فیوچر کی وزارت عظمیٰ میں سب بڑی رکاوٹ پی ٹی آئی تو جانے بنے نہ بنے یہی ن لیگی نتیجہ خیز ہوئی پارٹنر شپ نہ بن جائے، ہدف تمہارا ہی نہیں اور بھی کوئی اس پارٹنر شپ میں تم سے بڑھ کر شوقین وزارت عظمیٰ، کون؟ تمہیں اگر پوری سمجھ نہیں تو اس کی بھی کوئی فکر نہیں پاپا اگلا راستہ دکھا دیں گے‘‘۔

اسی روز کے اخبار میں ایک اور صحافی ایس اے زاہد لکھتے ہیں۔ ’’بلاول زرداری نے ایک نوجوان سیاستدان کے طور پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ وہ مستقبل کے بڑے اور کامیاب سیاستدان کے طور پر نظر آئیں گے۔ غیب کا علم تو خدا جانتا ہے لیکن آج ہم علم الاعداد کے حوالے سے چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مستقبل میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی اور الیکشن جب بھی ہوئے تو اس کے نتیجے میں بلاول زرداری ملک کے وزیر اعظم ہوں گے۔ پی ٹی آئی دو دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے پنجاب میں بالخصوص اور باقی صوبوں میں بالعموم پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگ پی پی پی میںشامل ہوں گے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے لوگ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوں گے جب بھی الیکشن ہوں گے صوبہ کے پی کے میں جے یو آئی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی مضبوط حکومتیں قائم ہوں گی۔ ن لیگ کا مستقبل بہت محدود نظر آرہا ہے یہ جماعت صرف پنجاب تک محدود ہوتی نظر آرہی ہے اور بمشکل چند نشستیں حاصل کرسکے گی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی مضبوط گرفت اور روشن مستقبل نظر آرہا ہے‘‘۔

بلاول کے لیے وزارت عظمیٰ کے لیے دو کوششیں ہوچکیں اور اب تیسری ہورہی ہے پہلی تو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں آصف زرادری صاحب بلاول کی وزارت عظمیٰ کے لیے سب کچھ دینے کو تیار تھے لیکن مقتدرہ والے نہیں مانے دوسری مرتبہ 8 فروری کے الیکشن میں بلاول کے مستقبل کے وزیر اعظم بننے کا بہت چرچا ہوا لیکن عوام نہیں مانے۔ دیکھیے اب تیسری بار کیا ہوتا ہے۔ آخر میں ہم ایک بار پھر بلاول کو تین بھانجوں (تین دفعہ) کے ماموں بننے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔