ّ27 اکتوبر: میں یہ دن کیسے بھولوں گی؟

182

7 اکتوبر 2023ء کو جب اسرائیل کی فلسطین پر یلغار میں سختی آئی تو پوری امت ِ مسلمہ مغموم ہو کر رہ گئی۔ ہمارے گھر میں بھی ہر فرد دکھی تھا خاص کر شہزاد صاحب نے اس کا بہت اثر لیا۔ وہ یہودیوں کی ڈھٹائی اور ظلم پر نفرت کا اظہار کرتے۔ اس مسئلہ میں عالم کی خاموشی پر افسوس کرتے اور بے چین تھے۔ گھر میں اپنے بچوں سے فلسطین کے حق میں دعائیں کرواتے بلکہ جب بچوں کی حدیث کلاس ہوتی تو اختتام کی دعا میں زیادہ دعا فلسطین کے حق میں ہی ہوتی۔ چھوٹے بچوں کے سوال کرنے پر مسئلہ فلسطین تفصیل سے انہیں سمجھایا۔ فلسطین فنڈ میں جمع کروانے کے لیے مجھے بھاری رقم دی اور کہا بیت المقدس کے لیے ہمیں اپنے طور پر اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے۔ میں یہ ذمے داری مال خرچ کر کے ادا کرتا ہوں اور تم اپنے قلم کے ذریعے کرو۔ یہی وجہ ہے کہ سات اکتوبر سے 26 اکتوبر تک اس متعلق میں جتنا لکھ سکتی تھی لکھا۔ وہ اس ظلم پر کڑھتے اور کہتے ’’یہودیوں کی سنگ دلی کی انتہا ہے کہ ان کے لیے انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں‘‘ لیکن میرے ہم سفر شہزاد صاحب کو کیا معلوم تھا کہ جس طرح بغیر کسی قصور کے یہ مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اسی طرح چند دن بعد ہمارے پورے گھر کو بھی بغیر کسی قصور اور وجہ کے گھناؤنے ظلم کا شکار ہو جانا ہے۔ دونوں اطراف پر ظلم میں وجہ بھی مشترک بن گئی۔ یہودی شروع ہی سے مسلمانوں کے مخالف صرف حسد کی بنا پر ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی ظالموں نے حسد کی آگ میں جل بھن کر ہمارے اوپر ظلم کا پہاڑ توڑا۔

27 اکتوبر بروز جمعۃ المبارک عصر کی نماز سے فارغ ہو کر شہزاد صاحب، ان کے دونوں بھائی، عزیز ترین کزن، یہ سب ڈیرے پر بیٹھے تھے کیونکہ یہ ان کا معمول تھا کہ ہر جمعہ، نماز جمعہ کے بعد شہزاد صاحب اپنے ڈیرے پر بیٹھتے۔ ہفتہ کے باقی چھے دن اپنے کاروبار پر توجہ دیتے اور ایک دن انہوں نے صرف خدمت خلق اور اپنے خاندان کے لوگوں سے ملنے جلنے کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ شہزاد صاحب سیاست میں بھی رہ چکے تھے اور اپنے علاقے کے چودھری بندے تھے۔ چودھری اس لیے لکھا ہے کہ لوگ انہیں اپنا چودھری سمجھتے ہوئے بے پناہ عزت اور محبت دیتے مگر شہزاد صاحب بہت ہی عاجز انسان تھے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو ان کا خادم سمجھا اور کہتے تھے ’’اگر میں کچھ کر سکتا ہوں تو میرے علاقے کے لوگوں کا حق ہے کہ میں ان کے کام آؤں‘‘۔ اپنے آبائی علاقے یعنی شاہ پورکانجراں میں واقع ڈیرے اور اپنے فارم، دونوں جگہوں پر شہزاد صاحب کا یہی کردار تھا۔ ڈیرے پر لوگ آتے، اپنی گزارشات ان کے سامنے رکھتے۔ شہزاد صاحب جس طرح، جیسے ممکن ہوتا ان کے کام آنے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے کئی بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کا ماہانہ خرچ اپنی جیب سے مقرر کر رکھا تھا۔ ریاکاری سے کوسوں دور تھے کہ شروع میں یہ سب کچھ مجھے بھی نہ بتاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بتانے سے شاید ان کا اجر ضائع نہ ہو جائے مگر جب مجھے محسوس ہوا تو میں نے کہا ’’یہ سب کچھ آپ مجھ سے نہ چھپایا کریں کیونکہ مجھے اور بچوں کو آپ ہی سے سیکھنا ہے۔ آپ مجھ پر اعتماد رکھیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی اور ان شاء اللہ اس سفر میں آپ مجھے اپنے ساتھ پائیں گے‘‘۔ پھر انہوں نے اپنے اس کار خیر میں مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کیا بلکہ ماہانہ دینے والی لسٹیں بھی بناتی اور کپڑوں کی خریدداری بھی ان کے ساتھ مل کر کرتی۔ میں نے بھی ان کی زندگی میں ان کے اس اعتماد کی لاج رکھی مگر اب میرا دل چاہتا ہے اس ولی اللہ کی خوبیاں ساری دنیا کو بتاؤں تاکہ سننے والے لوگ بھی اپنے اندر ایسی صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں اور یہ دنیا گلزار بن جائے۔

اس دن بھی معمول کے مطابق یہ لوگ اپنے ڈیرے پر بیٹھے تھے کہ اپنے ہی خاندان کے حاسد، شریر اور غلیظ سوچ رکھنے والے جن میں ایک شہزاد صاحب کے متوفی بھائی کا بیٹا مبشر اور تایا زاد بھائی اسلم پرویز کا بیٹا صابر اچانک خطرناک، دشت گردوں کے استعمال والے اسلحے کے ساتھ نمودار ہوئے اور چند لمحوں میں شہزاد صاحب، ان کے دونوں بھائیوں مصطفی اعوان، مرتضیٰ اعوان، کزن خادم حسین اعوان اور ایک ملازم بچے فہد کو شہید کر دیا۔ جانے والوں کے تو گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ حاسد اپنوں ہی کے خلاف دلوں میں اس قدر بغض پال رہے ہیں کہ یہ بغض کئی جانیں لے کر رہے گا۔ میرا چھوٹا دیور مرتضیٰ اپنے اکلوتے تین سالہ بیٹے کو اس کے تایا ابو سے ملوانے ڈیرے پر لایا تھا۔ خبیثوں نے اس بچے کو بھی نہ بخشا اور اسے بھی نشانہ بنا ڈالا مگر اللہ تعالیٰ نے اس معصوم کی جان رکھ لی اور ٹانگ پر گولی لگی۔ یہ سانحہ ہمارے لیے انتہائی اذیت والا اور کربناک تھا۔ مجرموں کے دماغی خبط نے چند منٹوں میں ہی سات خواتین کو بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور 26 بچوں کو یتیمی کی لائن میں کھڑا کر دیا۔ حاسدین شہزاد صاحب اور ان کے بھائیوں جیسے نہ بن سکتے تھے اور نہ ہی علاقے میں ان جیسی عزت پا سکتے تھے البتہ انہوں نے ان کو ختم کرنے میں ہی اپنی غلیظ بیماری کی تسکین کا حل ڈھونڈا۔ مجرموں کے والدین کی غلط تربیت اور ان کے معاملے میں لاپروائی نے ہم کتنے لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا یہ ہم ہی جانتے ہیں۔

ہمارے بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی جب ان کے بہت ہی پیار کرنے والے باپ اور چچے میتوں کا روپ دھارے ایک لائن میں پڑے تھے۔ ایک ہی وقت میں ہمارے گھر سے چار جنازے اٹھے جبکہ پانچویں شہید ملازم لڑکے کی میت اس کے آبائی گاؤں بھیج دی گئی تھی۔ میرا بڑا بیٹا تیرا سال کا درمیانہ ساڑھے پانچ سال کا چھوٹا صرف چار سال کا تھا جن کو ابھی اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر دنیا میں چلنا سیکھنا تھا۔ اسی طرح میرے دیوروں کے بیٹے بھی چھوٹے چھوٹے ہیں۔ بچے روز گھر میں غزہ اور بیت المقدس کا ذکر سنتے تھے۔ میرا درمیانہ بیٹا سوال کرنے لگا ’’یہودیوں نے میرے پاپا اور چچاؤں کو شہید کیا ہے ناں؟‘‘۔ میں نے جلدی سے ہاں کہہ دیا کیونکہ میرے پاس اس بچے کے سوال کا جواب نہیں تھا۔ وہ تو یہ سمجھ گیا کہ پاپا اور چاچو اب کبھی نہیں وآپس آئیں گے مگر جب بھی سوتا، سوتے میں رونا شروع کر دیتا، جانے والوں کو یاد کرتا، اس کا کئی دن یہ حال رہا۔ میرا چھوٹا بیٹا زندگی اور موت کے فلسفے سے ابھی تک نا آشنا ہے۔

وہ شروع میں اپنی توتلی زبان میں ضد کرتا تھا کہ ’’پاپا کو فون کریں گھر آ جائیں، میرا دل بہت اداس ہے‘‘ مگر میرے پاس اس کے پاپا کا فون نمبر نہیں ہے۔ پھر اس نے اپنی دانست میں یہ سوچا کہ شاید میرا پاپا فارم پر ہے اور فارم پر جانے کی ضد کرنے لگا۔ میں نے ایک دن اپنے چچا کے ساتھ اسے فارم پر بھیجا وہاں بھی اس نے اپنے باپ کو نہ پایا اور دوبارہ اس نے فارم پر جانے کا نہیں کہا۔ ہم اسے سمجھاتے ہیں کہ پاپا اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے ہیں اس لیے اب وہ اللہ تعالیٰ کے گھر جانے کا کہتا ہے۔ یہی حال میرے دیوروں کے گھروں میں بھی بچوں کا ہے۔ چھوٹے دیور کی ایک بیٹی اس کے جانے کے چار ماہ بعد پیدا ہوئی جس نے اپنے باپ کی خوشبو بھی نہیں سونگھی۔ ظالموں نے اپنی دانست میں ہمارے گھر کے سارے مردوں کو ختم کر دیا ہے مگر وہ کیا جانیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہمارے ساتھ آ لگا ہے۔ وہ خود ہمارا نگہبان، والی و سرپرست بن گیا ہے۔ ہمارے جانے والے شہادت کا رتبہ پا گئے ہیں۔ ہمارے بچے سدا شہداء کے بچے کہلائیں گے۔ ان کے باپوں کی نیک نامی ان کے ساتھ رہے گی۔ ان کے لیے لوگوں کے ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھتے رہیں گے۔

اور قاتلو! تم نے کیا کمایا؟ دنیا کی ذلت و رسوائی اور آخرت کی جہنم؟ اپنے بچوں کے لیے ’’قاتل کی اولاد‘‘ جیسا ہمیشہ کا لقب؟ اپنے والدین کے لیے زمانے بھر کی رسوائی اور شرمندگی؟ لوگوں کی لعنتوں اور بددعاؤں کا ورثہ؟۔ کیونکہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے اور ظلم مغلوب۔