ملیحہ لودھی !!!کشمیرپر’’ پریشاں خیال اشارے‘‘

258

اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت کی طرف سے نئی دہلی کی طرف کچھ ایسے سگنل بھیجے گئے ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ پاکستان بطور ریاست مسئلہ کشمیر کے ساز کی لے دھیمی کرکے تجارت کی دُھن تیزکرنے کی طرف جا رہا ہے۔ ان میں دو سگنل شنگھائی کانفرنس اور ایک کشمیر کے انتخابات کے موقع پر دیا گیا۔ موجودہ سسٹم کے سرپرست سمجھے جانے والے میاں نواز شریف کی طرف سے بھارتی صحافی برکھا دت کے ساتھ بات چیت میں دوطرفہ تجارت پر زور دیا گیا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکرکے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا اور جواب میں جے شنکرکا چہرہ مکمل بے تاثر اور سپاٹ دیکھا گیا۔ اس سے کچھ ہی دن پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرٹیکل 370 کی بحالی کے معاملے میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کی بات کی۔ انتخابات سے عین چند دن پہلے اس سے بیان سے وادی میں نیشنل کانفرنس کو تو کچھ فائدہ ہوا ہو مگر کانگریس بھی پاکستان کی نیک خواہشات کے تاثر کی بنا پر وادی کشمیر کی چار مسلم نشستوں پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس کے بیان کے ردعمل میں بی جے پی نے لامحالہ جموں سے مزید انتخابی کامیابی سمیٹ لی۔ ایسے میں پاکستان آرمی اور حکومت آزادکشمیر کے ادارے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (KIM) کے تعاون سے ہونے والی سیکورٹی ورکشاپ میں کشمیر کے حوالے سے دو باخبر افراد اور واقفان ِ حال، امریکا میں دو سابق سفراء ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور سردار مسعود خان کو سننے کا موقع ملا۔ سردار مسعود خان نے بہت سی باتیں تو کیں مگر شاید اپنی سیاسی مصلحتوں کی بنا پر غیر ضروری احتیاط اور بین السطور بات کہنے کا دامن بھی تھامے رکھا۔ اس کے برعکس ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے نہ صرف پانچ اگست 2019 کے وقت عالمی ایوانوں میں کشمیر پر ہونے والی سفارتی پنجہ آزمائی کی داستان بیان کی بلکہ انہوں نے اپنا نقطہ ٔ نظر زیادہ وضاحت صراحت اور بے باکی سے بیان کیا۔

ملیحہ لودھی چونکہ اس دور میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب تھیں اس حیثیت میں وہ ساری سفارتی رزم آرائی کی چشم دید گواہ اور حصہ تھیں۔ تاہم دونوں باخبر لوگوں کی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہورہا تھا کہ شنگھائی کانفرنس کے موقع پر پی ڈی ایم حکومت کے بھارت کو بھیجے جانے والے سگنلز کو کچھ اہم کوارٹرز میں اچھا نہیں سمجھا گیا اب یہ معاملہ ماضی کی روایات کے مطابق آگے چل کر ماضی کی طرح کسی نئی مقامی کھٹ پھٹ کی بنیاد بنتا ہے یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میاں نوازشریف کی دوحکومتیں اور جنرل پرویزمشرف کی حکومت ’’کشمیر ٹائم بم‘‘ کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اپنی گفتگو کا آغاز جنرل پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کے پیس پروسیس سے کیا جو دونوں ملکوں کے درمیان طویل عرصہ سے جاری ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا۔ حقیقت میں یہ نوازشریف واجپائی پیس پروسیس کے نئے نام کے ساتھ نئی پیکنگ ہی تھی گویا کہ نئی بوتل میں پرانی شراب۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کشمیر کہانی کی ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ اس پیس پروسیس میں کنٹرول لائن میں کوئی ردوبدل کیے بغیر دونوں خطوں کے درمیان روابط کو آگے بڑھایا جانا تھا تاکہ کشمیر کو کوئی ریلیف ملے۔ اس کا مقصد کنٹرول لائن کو غیر متعلق بناتے ہوئے کشمیر یوںکے درمیان آمدو رفت کو فروغ دینا تھا۔ جس کے بعد کنٹرول لائن کی ڈی ملٹرائزیشن اور جوائنٹ مینجمنٹ کا مرحلہ آنا تھا۔ اس سمجھوتے میں یہ بات بھی طے تھی کہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم سال میں کم ازکم ایک بار ملاقات کرکے اس منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ جس کے بعد دونوں خطوں میںآزادانہ انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔ اس سارے عمل میں کوئی فریق فتح کا دعویٰ نہیں کر ے گا بلکہ اسے وِن وِن سچویشن یعنی ’’سب کی جیت‘‘ ہی کہا جائے گا۔

کشمیر کے دونوں حصوں میں یہ مشق پندرہ برس تک جاری رہنا تھی جس کے بعد اس کی مستقل حیثیت اور مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے مطابق اس کے بعد پاکستان میں عدالتی بحران شروع ہو گیا اور یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ بھارت نے بھی اس عمل میں دلچسپی ختم کر دی۔ اس کے بعد بھارت میں نریندر مودی آگیا جس نے کشمیر کی خصوصی شناخت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے خلاف چین اور پاکستان نے سلامتی کونسل جانے کا فیصلہ کیا۔ ملیحہ لودھی چونکہ اس سرگرمی کا حصہ تھیں اس لیے ایک واقف حال کے طور پر انہوں نے یہ کہانی کھل کر بیان کی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مغربی بلاک نے اپنی منافقانہ روش پر چلتے ہوئے بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں ہونے دیا۔ چین اس معاملے میں تنہا ہی رہا مگر اتنا ہوا کہ عالمی فورم نے تسلیم کیا کہ کسی ملک کا یکطرفہ فیصلہ اقوام متحدہ کے فیصلے کا نعم البدل ہو سکتا ہے نہ اسے کالعدم کر سکتا ہے کیونکہ بھارت نے بھی یہ موقف اختیار کیا تھا کہ فیصلہ کشمیر کی معاشی ترقی کے لیے اُٹھایا جانے والا داخلی قدم ہے۔ ملیحہ لودھی کے مطابق پاکستان کی مستقل مندوب کے طور پر انہوں نے بھی یہ موقف اختیار کیا کہ داخلی ترقی کے لیے بننے والا قانون اقوام متحدہ کی قرارداداوں کو نہیں بدل سکتا۔ اس کے بعد ملیحہ لودھی نے کشمیر کے حالیہ انتخابات پر بات کی اور کہا کہ انتخابات سے پہلے بھارت نے ایسی ہر قسم کی انتظامی آبادیاتی اور حلقہ جاتی تبدیلیاں کیں جن کا اثر مستقبل کے منظر نامے پر پڑ سکتا تھا۔

مغربی پاکستان کے شرنارتھیوں کو کشمیر کی شہریت دی گئی۔ حلقہ بندیاں اس طرح کی گئیں کہ جموں کی سیٹوں میں چھے کا اضافہ ہوا جبکہ وادی کی صر ف ایک سیٹ بڑھائی گی۔ گورنر کو مزید ممبر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا۔ تاہم حریت کانفرنس سمیت کسی آزادی پسند قوت نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا۔ اس طرح یہ الیکشن مودی کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے لیے ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کر گیا۔ یوں یہ الیکشن نیشنل کانفرنس نے جیت لیا۔ تمام جماعتوں نے انتخابات میں پانچ اگست کے فیصلے کو ریورس کرانے کے نام پر الیکشن لڑا۔ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کی سزا ملی اور صرف تین سیٹیں ہی جیت سکی۔ ملیحہ لودھی کے مطابق یہ الیکشن بھی پانچ اگست کے فیصلے کی طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نعم البدل نہیں۔

یہاں سے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی گفتگو کا وہ اہم حصہ شروع ہوا جس کا تعلق حکومت پاکستان کی رواں کشمیر پالیسی اور حالات ِ حاضرہ سے ہے۔ وہ موجودہ حکومت کی کشمیر پالیسی سے خاصی نالاں اور ناراض دکھائی دے رہی تھیں گوکہ وہ اس ناراضی کا اظہار مسکراتے ہوئے کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کشمیر کے پوسٹر چسپاں کرنے اور یکجہتی کا ایک دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کشمیر کی قیادت اور عوام پاکستان سے مایوس ہیں کیونکہ یہاں لوگ اپنی توانائی ثانوی تنازعات میں ضائع کر رہے ہیں۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ کشمیری کہتے ہیں کہ آپ اپنے جھگڑے حل نہیں کر سکتے ہماری کیا مدد کریں گے؟۔ ان کا کہنا تھا ان حالات میں آزادکشمیر کے عوام کو بولتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ ایک صفحے کے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ میں نے خواجہ آصف کو میسج کیا اس طرح کی گفتگو سے کشمیر میں غلط سگنل جاتے ہیں۔ حکومتی ذمے داروں کو ایسی ’’لوز ٹاک‘‘ نہیں کرنی چاہیے یہ پاکستان کے قومی موقف کے برعکس ہے مگر انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ ڈپلومیٹ ہیں اور میں سیاست دان مجھے یہی کہنا چاہیے۔

ملیحہ لودھی نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ چند دن بعد اس طرح پورا ہوا کہ جس کانگریس کے ساتھ نیشنل کانفرنس نے جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ووٹ کاٹنے کے لیے معاہدہ کیا تھا وہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں نیشنل کانفرس کے ہاتھ سے چار سیٹیں نکال لینے میں کامیاب ہو گئی۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے میاں نوازشریف کی بھارتی صحافی برکھا دت کے ساتھ ملاقات پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے بھی کشمیر پر ’’کنفیوزڈ سگنل‘‘ یعنی پریشاں خیال اشاروں کا نام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں کشمیر پر تو کوئی بات نہیں ہوئی مگر کرکٹ کی باتیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے کھل کر کہا بھارت کے بدنام صحافیوں کے ساتھ سائیڈ لائن پر بات چیت نہیں ہونی چاہیے تھی اور نہ ہی تجارت کے لیے بے تابی کا اظہار ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا حد تو یہ کرکٹ کی بات کا جواب بھی بھارتی وزیر خارجہ نے اثبات میں نہیں دیا۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا وہ یہ تجویز پیش کرتی رہیں کہ حکومت پاکستان جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مستقبل مندوب کے تقرر اور نامزدگی کا مطالبہ کرے اس سے کچھ اور ہو یا نہ ہو مگر بھارت کو تکلیف توضرور ہوگی۔ گوکہ سردار مسعود خان کا انداز بیاں ملیحہ لودھی کی طرح دوٹوک اور غیر مبہم نہیں تھا مگر انہوں نے دبے لفظوں میں بھارت کو تجارت کے حوالے سے بھیجے جانے والے ’’کنفیوزڈ سگنلز‘‘ کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس وقت بھارت کے ساتھ تجارت ممکن نہیں کیونکہ ہمارا مینوفیکچرر اسٹرکچر کمزور ہے اور پہلے تو چین ہی ہماری منڈیوں پر چھایا ہوا ہے بھارت سے تجارت کی صورت میں ہماری منڈیاں بھارتی مال سے بھی بھر جائیں گی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ تھا کہ اپنے مقصد پر قائم رہیں، شکست خوردگی کا مظاہرہ نہ کریں خواہ ایک صدی بھی گزر جائے تو بھی اپنے موقف پر قائم رہیں۔ ان کی اس نصیحت آموز بات میں سامعین ِ َمحفل سے زیادہ کنفیوزڈ سگنل بھیجنے والوں کے لیے کچھ کوارٹرز کا ناراضی بھرا کلیئر سگنل (واضح اشارہ) تھا۔