اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں عوام پریشان ہیں کہ انصاف نہیں ملتا اور ہمارے حکمرانوں کا کمال یہ ہے کہ جو چیز عوام کو نہیں ملتی اس کے نام پر عوام ہی کو لوٹتے ہیں۔ وہ بجلی ہو، پانی ہو، امن وامان ہو، معاشی استحکام ہو یا عدل و انصاف۔ چنانچہ حال ہی میں آئینی عدالت بنانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی جو بوجوہ ناکام ہوگئی اور اس کا سہرا کسی کے سر چلا گیا لیکن پھر آئینی عدالت سے آئینی بنچ تک کا سفر ہوا اور پورا عدالتی نظام پارلیمنٹ کے زیر اثر آگیا۔ کیا کوئی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اب انصاف مل جائے گا۔ ہماری ساری کوشش اسی ٹوٹے پھوٹے فرسودہ نظام میں سے انصاف کشید کرنے کی ہے اور یہ نظام قابض انگریز نے مقبوضہ علاقوں کا نظام چلانے کے لیے بنایا تھا۔ اب کالے انگریز اس نظام کو سینے سے لگائے قوم کو غلام بنائے بیٹھے ہیں۔ کسی زمانے میں اور یہ زمانہ بھی کوئی چالیس سال پرانی بات ہے کہ لوگ عدالتی نظام کے بارے میں دونوں رائے رکھتے تھے۔ مسئلہ ہے تو عدالت جائو۔ کوئی کہتا تھا کہ عدالت میں دیر لگے گی جرگہ وغیرہ کرلو آپس میں معاملات طے کرلو۔ لیکن آج کوئی کہے کہ عدالت جارہا ہوں تو قابض، ظالم اور مجرم کہے گا بڑے شوق سے جائو۔ تمہاری دوسری یا تیسری نسل کے سامنے فیصلہ آجائے گا۔ اس نظام عدل کو ہم سینے سے لگائے ہوئے ہیں جبکہ اس عدالتی نظام کا حال کیا ہے۔ تقریباً 25 لاکھ مقدمات، سیشن کورٹ، سٹی کورٹ، ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ گویا 25 لاکھ کے ملک میں 50 لاکھ دونوں طرف خاندان یا ان کے گھر کے 2 کروڑ لوگ انصاف نے منتظر ہیں اگر ایک خاندان بھی چار افراد بھی کہیں تو پاکستان کی آبادی میں دو کروڑ لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سول سروسز کے زیر انتظام عدالتیں بھی ہیں جن میں مزید کیسز پڑے ہیں، کمشنر ڈی سی وغیرہ کے پاس بھی ہیں اور وہاں بھی مقدمہ ایسے ہی چلتا ہے جیسا سٹی سیشن ہائی یا عدالت عظمیٰ میں چلتے ہیں۔ انگریز چلے گئے انگریزی قانون چھوڑ گئے انگریز نے یہ قانون انصاف دینے کے لیے نہیں بنائے تھے بلکہ اپنے راج کو تقویت دینے کے لیے بنائے تھے۔ آج بھی انگریز کے نظام سے ایسے چمٹے ہوئے ہیں جیسے اس کی ہر چیز مقدس ہے۔ حتیٰ کہ توہین عدالت جیسے قوانین جو سراسر غیر اسلامی ہیں، عدالتوں کا لباس، انداز تخاطب، عدالتوں کی چھٹیاں، سب اسی طرح ہیں، کرسمس کی چھٹیاں دسمبر میں ہوتی تھیں اب بھی دسمبر ہی میں ہوتی ہیں۔ وہ تو اسکولوں میں بھی ہوتی ہیں سردیاں خواہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں آئیں اسکولوں کی چھٹیاں دسمبر کے آخری عشرے میں ملیں گی۔ یہی عدلیہ میں بھی ہوتا ہے۔ انگریز نے سارا قانون غلاموں کے سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا تھا۔ 1860ء کا انڈین پینل کوڈ ہو، یا 1935ء کا ایکٹ یا 1881ء کا پولیس ایکٹ، گواہوں کے بیانات کا نظام بھی وہی ہے۔ جرح جواب جرح، سماعت کا طریقہ سماعت کا التوا اسی طرح ججوں کے اختیار میں ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ جج صاحب مقدمات سنتے کیوں نہیں، ملتوی ملتوی نئی تاریخ کیوں؟۔ ایسے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں ججوں کے غلط فیصلے سامنے آچکے لیکن کسی عدالت نے غلط فیصلے پر ججوں کے خلاف کوئی کارروائی کہیں کی۔ تیس تیس برس بعد پتا چلتا ہے کہ سزا غلط دے دی گئی تھی، بے قصور کو تیس برس بعد انصاف مل گیا جیسی سرخیاں اخبار کی زینت بنتی ہیں حالانکہ 30 برس تو غلط عدالتی فیصلے نے ضائع کردیے، دو نسلیں تباہ کردیں بعض اوقات تو بے قصور لوگ جیلوں میں مر گئے لیکن انہیں مرنے کے بعد بے قصور مانا گیا، اسے ہم انصاف کا نظام کہیں، چند مثالیں دیکھیں مرتضیٰ بھٹو قتل کیس چل رہا ہے، چل رہا ہے اور چلے چلا جارہا ہے۔ بے نظیر قتل کیس چل رہا ہے چلے جارہا ہے۔ درجنوں چھوٹے بڑے اور ہائی پروفائل کیسز چلے جارہے ہیں، کبھی گواہ غائب، کبھی جج چھٹی پر، کبھی بنچ تبدیل، کبھی کچھ چھوٹا سا ملازمت کا مقدمہ ہو قتل کا ہو یا اربوں کی جائداد کا حکیم سعید جیسے رہنما کا قتل ہو یا آج کل عمران خان کے توشہ خانہ سمیت درجنوں مقدمات ہیں۔ اسی طرح جب تک مسلم لیگ کی حکومت نہیں آئی تھی اس کے پٹواروں کے مقدمات چل رہے تھے اور چلے چلے جارہے تھے۔ رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ حکومت آتے ہی قانون بدلے، ایف آئی اے اور نیب کے پر کاٹے گئے اور سب ٹھیک ہوگیا۔ اب عمران خان کے مقدمات ہیں چلے جارہے ہیں اور فیصلہ نہیں ہورہا ہے۔ اس میں پیچیدگی کوئی نہیں ہے، اصل چیز بدنیتی ہے، بے نظیر بھٹو پر مقدمات تھے لیکن استغاثہ نے ایسے مقدمات بنائے کہ سزا نہ ہونے پائے۔ حتیٰ کہ مرتضیٰ بھٹو کے خلاف مقدمات اس طرح تیار ہوئے کہ میڈیا پر زور و شور سے خبریں اور قانون کے سامنے بے کار پرزے۔ آخر کار ضمانت ہوگئی۔ موجودہ صدر مملکت کے خلاف کیسز چلتے رہے، انہیں میڈیا پر مجرم ثابت کیا جاتا رہا، عدالت میں معصوم نکلے۔ یہی معاملہ عمران خان اور بشریٰ بی بی حتیٰ کہ الطاف حسین کا رہا۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی انہیں کوئی مجرم ثابت نہ کرسکا۔ بلکہ سیاسی رہنما تو اپنے خلاف مقدمات پر خوش ہوتے ہیں کہ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔ اور حقیقت ہے کہ یہ اونچے ہی اڑتے ہیں۔
آج تک کسی غلط فیصلے پر ججوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اول تو اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ غلط فیصلے دینے والے جج مرچکے ہوتے ہیں، ہڈیاں بھی گل گئی ہوتی ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں دیا جاتا۔ ایک مرتبہ نظیر قائم ہوجاتی جسٹس منیر کو نشان عبرت بنایا جاتا۔ جنرل یحییٰ، جنرل ضیا، جنرل ایوب، جنرل مشرف کسی کو ایل ایف او تیار کرنے کی اجازت نہیں ملتی، کوئی آئین توڑنے کی اہمیت نہیں کرتا۔ نظریہ ضرورت عدالت عظمیٰ میں دفن کرسکتی تھی اور اسے ہی کرنا چاہیے تھا۔
ہاں طاقتور کو انصاف مل جاتا ہے، یہی بات بلاول نے کہی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ججوں کو مل جاتا ہے جبکہ ان کے نانا کے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پھانسی چڑھنے کو ان کی حکومت کے دور میں عدالتی قتل قرار دیا گیا اور انہیں اب عدالت سے شہید کا درجہ دلوادیا گیا ہے۔ گویا طاقتور ہی کو انصاف ملا۔ کمزور تو لاپتا ہیں یا دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جاتے ہیں۔ اس فرسودہ عدالتی نظام میں ہزاروں لاکھوں بے قصور جیل میں اور طاقتور ضمانتوں پر آزاد دندناتے پھر رہے ہیں۔ لوگ حق پر ہوتے ہوئے مقدمہ درج کرانے سے کتراتے ہیں کہ بلاوجہ طاقتور سے پنگا نہ لیا جائے۔ کبھی کسی جج کے غلط فیصلے پر اس کا کچھ نہیں بگڑا۔ اچھا بھٹو کیس تو پرانا تھا، میاں نواز شریف کو پاناما میں پھنسایا گیا اور اقامہ میں نکالا گیا اب ان کی حکومت ہے غلط فیصلہ تھا تو ججوں کو لٹکا دینا چاہیے تھا، زندہ ہیں گھوم رہے ہیں۔ ایک جنرل پرویز کا ٹرائل ہوا وہ زندہ رہے فیصلہ نہیں ہوسکا۔ کسی ایک جرنیل یا آئین شکن کو اس کی زندگی میں غدار تو قرار دیا جاتا تو شاید اس انگریزی نظام عدل پر کچھ اعتماد پیدا ہوتا۔ پشاور ہائی کورٹ کے جج وقار سیٹھ نے کہا تھا کہ اگر مجرم مر بھی جائے تو لاش قبر سے نکال کر ہڈیوں کو سزا دی جائے۔ اس کا مقصد لاش کی بے حرمتی نہیں تھا نشان عبرت بنانا تھا۔ جیسے پھانسی سرعام یا لاش لٹکا دیان وغیرہ۔ اس نظام میں مجرم کو تحفظ اور بے قصور کو سزا ہوتی ہے۔ پھر ہیروئن مافیا، قبضہ مافیا، لینڈ مافیا، منشیات اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ ان سب کو اس نظام عدل سے فائدہ پہنچا ہے۔ بسا اوقات قانون کے مطابق ایک مجرم کے خلاف تمام ثبوت ہوتے ہیں اس کے بچنے کے امکانات کم ہوتے ہیں لیکن یہ عدالتی نظام ایسا ہے کہ مقدمہ بھی چلانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ عدالتی نظام مجرموں کے تحفظ کا سبب بنتا ہے۔ زمینوں پر قبضے کے مقدمات تو کئی کئی عشرے چلتا ہے۔ گائوں دیہات کے لوگ تو اس سے بھی زیادہ خوفناک ماحول میں ہیں۔ ان کے سامنے چودھری، پنچایت اور پھر تھانے دار ہے یہ سب ایک پیج پر ہوتے ہیں، آج تک یہ سننے میں نہیں آیا کہ چودھری نے یا اس کے بیٹے نے کسی سے زیادتی کی اور سزا بھی اسے ہی ہوئی۔ ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ سزا بھی مظلوم کو ہوئی۔ الغرض بیش تر جرائم کو عدالتی نظام کے ذریعے ہی تحفظ مل رہا ہے۔ فرضی مقدمات، فرضی گواہیاں، فرضی ایف آئی آرز ہیں، اس سارے نظام میں وکیلوں کے بھی وارے نیارے ہوتے ہیں اور جن وکیلوں کا گزارہ تاریخوں کے بڑھنے اور نئی تاریخیں لگنے پر ہوتا ہے وہ اس نظام کو کمائی کا دھندہ بنائے بیٹھے ہیں۔ غرض یہ نظام انصاف کے سوا سب کچھ دے سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کریں کیا۔ اور یہی خرابی کی جڑ ہے۔ ہم اور ہمارے ماہرین اسی انگریزی نظام عدل میں خرابیوں کو اسی میں رفو اور پیوند لگا کر مرمت کررہے ہیں جبکہ اسلامی مملکت کو انگریز کا نظام نہیں چاہیے اسے خصوصی عدالت، فوجی عدالت، سول عدالت یا آئینی عدالت کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کو صرف اسلامی عدالت کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے مسائل کا حل انگریز کے قوانین میں تلاش کرتے رہتے ہیں ان کو اسلامی لبادہ بھی اوڑھا دیتے ہیں لیکن جب تک خالص اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے انصاف نہیں ملے گا، اور جس معاشرے میں عدل نہ ہو اس میں امن بھی نہیں ہوسکتا۔ اسلام نے ہر شعبہ زندگی میں عدل کے قیام پر زور دیا ہے، صرف عدالتی معاملات میں نہیں بلکہ گھریلو معاملات میں بھی آپس کے تعلقات میں بھی، ذاتی لین دین میں بھی، ہر ہر چیز کی تعلیم بھی موجود ہے اور طریقہ کار بھی موجود ہے۔ گواہوں کے تحفظ کا بھی حکم ہے، پاکستان نے بہت ترقی کی ہے، ایٹم بم بنایا ہے، سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت آگے گئے ہیں، جدید ہتھیار بنارہے ہیں تو اپنے پاس موجود اسلامی نظام عدل کی بنیاد پر اسلامی عدالت کو نہ صرف قائم کریں بلکہ اسلامی نظام عدل قائم کریں۔ یہ عدالتی نظام قائم بھی ہے لیکن بالاتر عدالت عظمیٰ اور پارلیمنٹ ہے۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ ہے یہ اسلام سے بھی مذاق ہے۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ اتنے پرانے نظام سے تو اچھا 1860 کا نظام ہے، 1935 کا ایکٹ ہے، نہیں ہرگز نہیں۔ اسلام نے تو ایک ایک شعبے کے لیے قانون بھی دیا ہے اور اس پر برس ہا برس عمل بھی ہوا ہے۔ قاضی کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کے غلط فیصلے پر خلیفہ وقت تلوار سے اس کا فیصلہ کرنے کا ذمے دار بھی تھا اور اختیار بھی رکھتا تھا۔ برسوں اسلامی ممالک میں اسلامی قوانین نافذ رہے ہیں۔ اور حدود کے قوانین کے نفاذ سے تو زندگی ملتی ہے۔ سال میں 18 افراد کی سرعام پھانسی یا گروہ اڑانے سے ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ سعودی عرب میں امن سے رہتے تھے۔ یہ تو سب نے دیکھا ہے ہم بھی حدود قائم کریں معاشرے کو زندگی ملے گی، امن ملے گا انصاف ملے گا تو لوگوں کو سکون ملے گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا حکمراں طبقہ خود پر کوئی قانون نافذ نہیں ہونے دیتا خود ہر قانون سے بالاتر رہنا چاہتا ہے اور اسلامی قانون بادشاہ اور عام آدمی سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ اس مروجہ عدالتی نظام میں جتنی آئینی ترامیم کریں انصاف نہیں مل سکتا۔ انصاف ملے گا تو اسلامی عدالت میں ملے گا، آئینی عدالت میں نہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ حکمران اور عام آدمی، جج اور جرنیل سب اس میں برابر ہوں تب ہی معاشرہ امن پا سکتا ہے۔ کون ہے جو اپنے آپ کو عام لوگوں کے ساتھ کھڑا کرنے کو تیار ہو۔ کوئی ایم این اے، ایم پی اے اس کے لیے تیار نہیں بلکہ اب تو کونسلر، یوسی چیئرمین اور میئر، ڈپٹی میئر اس کے لیے تیار نہیں۔ وزرا اور وزرائے اعلیٰ و وزیراعظم، صدر مملکت، گورنر، جرنیل، جج کیسے اس کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو خود کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرے پھر سیدنا عمرؓ کی طرح اپنے تمام گورنروں اور حکام کو احتساب کے لیے پیش کرے اور پھر جب وہ کسی کا احتساب کرے تو کوئی چوں بھی نہیں کرے گا۔ ایسے لوگ بھی اس ملک میں موجود ہیں انہیں آگے لانا ہوگا، معاشرے کو امن انصاف اور سکون چاہیے تو خواہشات کی قربانی دینا پڑے گی۔ پاکستان کی فلاح اسلامی عدالت میں ہے۔