بھارت سے تعلقات کی بحالی شہدا خون سے غداری ہوگی،لیاقت بلوچ

69

آزاد کشمیر /لاہو ر(نمائندگان جسارت) نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے جاسکتے۔ جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت 5 اگست
2019ء سے پہلے والی پوزیشن پر بحال نہیں ہوتی، اس وقت تک بھارت کے ساتھ تجارت، تعلقات کی بحالی کی باتیں بانیانِ پاکستان کے دیرینہ اُصولی مؤقف سے روگردانی اور کشمیری شہدا کے خون سے غداری ہوگی۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کا یہ قول کہ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ ہماری کشمیر پالیسی کا محور ہونا چاہیے۔ اِن خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد کشمیر (باغ) میں عظیم الشان سیرت کانفرنس اور دیگر اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر و سابق رکن آزاد کشمیر اسمبلی جناب عبدالرشید ترابی، قائم مقام امیر جماعت اسلامی ضلع باغ میجر تصور، مقامی ذمے داران و کارکنان سمیت عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ 27 اکتوبر یومِ سیاہ کے حوالے سے لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ 27اکتوبر 1948ء وہ منحوس دن تھا جب کشمیر میں بھارت کی مسلح افواج داخل ہوئیں اور ریاست جموں و کشمیر کے بڑے علاقے پر غیر قانونی اور غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا میں 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ منایا جاتا ہے۔ اس وقت 9 لاکھ سے زاید بھارتی افواج کے مظالم کا سامنا کرتے کشمیری عوام حق خودارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اس جدوجہد میں پوری پاکستانی قوم ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ ہے، ہم ان شاء اللہ خون کے آخری قطرے تک اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی سیاسی، اخلاقی، سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے قیامِ پاکستان کے بعد اس کے ساتھ ہمسایہ دوست ملک کی حیثیت سے رہنے، اس کی آزادی و خود مختاری کو تسلیم کرنے اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے دانستہ طور پر کشمیر کا مسئلہ پیدا کر کے بگاڑ کی بنیاد رکھی۔ اس بگاڑ کی بنیادی وجہ ایک سوچ ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان نے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو کاری ضرب لگائی ہے، اسی لیے بھارت کی انتہا پسند ہندو قیادت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کی بنیاد رکھی۔ اِسی لیے پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر انگوٹھا رکھ کر وہ پاکستان کی سا لمیت کمزور کرنے اور اسے لق و دق صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش تیار کی۔ یہ سازش وہ کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک کر ہی بروئے کار لاسکتا تھا، چنانچہ اس نے مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کرنے کے بجائے اسے متنازع بنا دیا اور تصفیے کے لیے یواین سلامتی کونسل میں جا پہنچا، تاہم سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کرانے کی ہدایت کی۔ بھارت نے اس کے برعکس مقبوضہ وادی پر اپنا تسلط مستقل کرلیا اور بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی گردان شروع کر دی، جس کے بعد کشمیری عوام نے مزاحمت اور بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔صحافی کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے شروع دن سے ہی اصولی موقف اختیار کیا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دے کر مسئلہ کشمیر حل کیا جائے جبکہ بھارت گزشتہ ساڑھے 7 دہائیوں سے کشمیر پر نہ صرف اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، بلکہ اُس نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین سے مقبوضہ وادی کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی دفعات 370، اور 35 اے کو نکال کر اسے جموں اور لداخ میں تقسیم کیا، پھر انہیں باقاعدہ بھارتی اسٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا۔ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ کشمیر بھارت کا ہرگز حصہ نہیں، اور نہ ہی اُس کا اٹوٹ انگ ہے،کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ اور عرصہ دراز سے حل طلب مسئلہ ہے، جس کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا ہے، چنانچہ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے لیے کردار ادا کرے۔ پاک، بھارت تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ ہی مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت اگر پاکستان کیساتھ واقعی سازگار تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو اُسے اپنے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے اقوامِ متحدہ میں خود جاکر پوری دنیا کے سامنے کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ وادی آج بھی بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرکے کشمیری عوام کو محصور اور انہیں ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم کررکھا ہے۔ ا س کے باوجود کشمیری عوام بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی مزاحمت کرکے اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر جدوجہد آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کررہے ہیں، کشمیریوں کی نسسل کشی پر سکوت اور بھارت سے دوستی کی باتیں ناقابلِ قبول ہیں. بھارت کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ وادی میں پیدا کی گئی خوف و دہشت کی فضا میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحالی کی بات کرنا کشمیری عوام کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے، ان کی جدوجہد آزادی کا سفر کھوٹا کرنے، شہداء کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کرنے اور کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ، اصولی اور دوٹوک مؤقف کو غارت کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسئلہ کشمیر پر نِت نئے فارمولے پیش کرنے کی بجائے حکومتِ پاکستان کشمیر کی جدوجہد آزادی کو سفارتی محاذ پر بہتر انداز میں سپورٹ کرنے کے لیے نائب وزیر خارجہ کا تقرر کرے، مسئلہ کشمیر پر متفقہ قومی مؤقف جاننے کے لیے قومی فلسطین کانفرنس کی طرز پر آل پارٹیز قومی کشمیر کانفرنس بلائے اور باہمی مشاورت سے ایک متفقہ قومی کشمیر پالیسی کا اعلان کرے۔