نواب شاہ (نمائندہ جسارت) ضلع شہید بے نظیر آباد کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی ایمرجنسی نہ ہونے کی وجہ سے وسائل کا بے دریغ استعمال ہونے لگا، ایس ٹی آر پالیسی کی دھجیاں اُڑا دی گئیں ، اساتذہ یونینز ہی اساتذہ کے حقوق سلب کرکے بلیک میلنگ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جبکہ ضلع بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے، پرائمری اسکول سے فارغ ہونے والے بچے مڈل اسکول اور ہائی اسکول میں داخلہ نہ لینے کی وجہ اساتذہ عملہ اور غیر معیاری نظام تعلیم قرار دیا جارہا ہے۔ دوسری جانب حکومت سندھ کے اسکولوں میں وسائل کے بے دریغ استعمال ہونے لگا، پرائمری اسکولوں میں صبح کے اوقات اور شام کے اوقات کار میں اسکولوں میں دو دو بیڈ ماسٹر تعینات ہیں۔ شہریوں کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ڈبل شفٹوں کی پرائمری اسکولوں کو مکمل طور پر پرائمری اسکول بنایا جائے تاکہ وسائل کا بے دریغ استعمال نہ کیا جائے، ارباب اختیار نوٹس لیں، پرائمری اسکولوں کو تباہ نہ کریں بلکہ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جائے، ایس ٹی آر پالیسی کے تحت ایک استاد کم از کم 25 بچے کی انٹر نیشنل یونیورسل پالیسی کا نفاذ کیا جائے اور قابل اساتذہ کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جائے، اساتذہ بیس، بیس سال سے ایک ہی جگہ تعینات ہیں جو حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے، اساتذہ نہ تو پڑھاتے ہیں اور نہ ہی پڑھانے کے قابل ہیں۔ ایس ٹی آر پالیسی کے تحت ان کا ٹرانسفر کیا جائے، بھرتی ہونے والے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے کم تنخواہ اور وسائل کی کمی کے باعث گھر کے قریب قریب تعینات کر کے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا یا جائے ، تعلیم اور تعلیمی اداروں سے اقربا پروری تعلیمی کرپشن کو ختم کیا جائے، پرائمری اسکولوں کو مکمل طور پر سیاست سے پاک کیا جائے، نام نہاد تنظیموں پر مکمل پابندی عائد کی جائے، پرائمری اسکولوں میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے ڈور ٹو ڈور پولیو کی طرح گھر گھر تعلیمی اداروں میں داخلے کی مہم حکومتی سطح پر چلائی جائے۔