افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

317

جماعت اسلامی کا مقصد
بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے ہمیں اپنا حریف سمجھ لیا ہے حالاں کہ ہم کسی انسان‘ گروہ‘ یا فریق کے حریف نہیں ہیں۔ ہم تو معاشرے کی برائیوں کے مخالف ہیں۔ ہماری عداوت شر اور فساد سے ہے۔ ہم انسانوں کے دشمن نہیں بلکہ ہمدرد ہیں۔ اگر ہم نے اصلاح کے لیے کبھی کوئی سخت طریقہ اختیار کیا تو ہمارا رویہّ دشمن کا سا نہیں بلکہ اس ڈاکٹر کا سا تھا جو مرض کو ختم کرنے کے لیے مریض سے سختی روا رکھتا ہے۔ محض اخلاص کی بنا پر ہماری تنقید میں سختی تھی۔ ہماری طرف سے کسی کو بدنام کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف توجہ اور اصلاح کی خاطر بنیادی برائیوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ پھر اس کارِخیر کے لیے ہم اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھے تھے کہ ہم فرشتے اور اس قوم کے صالح ترین لوگ ہیں بلکہ اس معاشرے کی اصلاح کے لیے‘ جس کے ساتھ ہمارا مرنا‘ جینا ہے۔ اس خیال سے اٹھے کہ اگر عذابِ الٰہی آیا تو ہم سب میں سے کوئی نہ بچ سکے گا۔ برائیوں کے برے نتائج سے بچنے کے لیے ہم اپنی اور خلق خدا کی اصلاح چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے گروہ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں نے خود اپنا‘ معاشرے کا اور پوری قوم کا نقصان کیا ہے۔ بہرحال یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں پھر کام کا موقع عطا فرمایا۔
٭…٭…٭
ہمارے ملک اور قوم کا اخلاقی انحطاط پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جرائم کی کثرت‘ فواحش کی زیادتی اور اخلاق کا بگاڑ… یہ ساری کیفیت آپ کے سامنے ہے۔ ہر اخلاقی حس رکھنے والا آدمی بگاڑ کی اس رفتار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اپنی طاقت اور ذرائع استعمال کر کے اس رفتار کو روکا جائے اور قوم کو برائی سے روکنے اور بھلائی کی طرف موڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس موقع پر‘ جب کہ ہم یہ کام شروع کر رہے ہیں ضرورت ہے کہ ہم ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اصل کام کیا ہے؟ خود وہ حالات کیا ہیں جن میں ہمیں کام کرنا ہے‘ اور اس کام کو انجام دینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر اور اس کے ساتھ باہر کیا کیا تبدیلیاں لانی ہیں۔
٭…٭…٭
جماعت اسلامی کے پیشِ نظر اوّل روز سے یہ مقصد رہا ہے کہ پورے نظام زندگی کو جو خدا کی بندگی سے بے نیاز اور آزاد ہو کر چل رہا ہے‘ تبدیل کیا جائے اور اسے ازسرنو اللہ کی بندگی اور انبیاے کرامؑ کی لائی ہوئی تعلیمات پر استوار کیا جائے۔ جماعت کسی جزوی مقصد کے لیے کام نہیں کر رہی۔ ویسے وہ محدود مقاصد کو برا نہیں سمجھتی اور نہ ان کی مخالف ہے۔ اس زمانے میں‘ جب کہ کوئی اللہ کی بندگی کی طرف بلاتا ہو اور چاہے صرف کلمہ ہی کیوں نہ پڑھواتا ہو وہ بہرحال نیکی کا کام ہے۔ شیطان کی طرف بلانے والوں کے مقابلے میں نیکی کی طرف بلانے والے کا ہم خیر مقدم ہی کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہمیں غلط کہے۔ اسی طرح اگر کوئی علم دین کا کام کررہا ہے تو ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا اس کے کام میں برکت دے مگر ہمارے پیش نظر جو کام ہے وہ نظامِ زندگی کی بحیثیت مجموعی اصلاح اور پورے نظامِ زندگی کا دین حق کی بنیاد پر قیام ہے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے انبیاؑ بھیجے جاتے رہے ہیں۔ ا نبیاؑ کسی جزوی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ کلی اصلاح کے لیے آئے تھے۔ خدا سے بے نیازی اور بغاوت ختم کر کے اس کی بندگی اور قانونِ شرعی کی پیروی کے سوا ہم کوئی اور مقصد نہیں رکھتے۔ اس مقصد کو ہم اوّل روز سے واضح کرتے چلے آئے ہیں۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، 6 جون 1965)