پاکستان اور بھارت ہمیشہ سے جغرافیائی اور تہذیبی شناخت رکھنے والے الگ الگ ملک نہ تھے۔ اِن دونوں ملکوں کے مجموعے کو ہندوستان کہا جاتا تھا۔ اس وسیع خطہ زمین کو یہ نام بھی شاید مسلمان حکمرانوں نے دیا تھا جو افغانستان کے راستے اس خطے پر حملہ آور ہوئے اور صدیوں اس پر حکمرانی کرتے رہے۔ عرب تاجروں کے ذریعے اسلام تو خیر مسلمان حکمرانوں کی آمد سے پہلے ہی یہاں پہنچ گیا تھا لیکن اسلام کی اشاعت و توسیع بزرگان دین اور صوفیائے کرام کی کوششوں سے ہوئی جبکہ مسلمان حکمرانوں نے اسلام کو پھیلانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہ لی۔ اس کے برعکس مغل حکمرانوں نے ہندو اکثریت کو تحفظ دیا، ان کی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کیا اور حکومت چلانے کے لیے ہندوئوں کو بلند مرتبے دیے۔ تاہم مسلمان حکمرانوں کی عدم توجہی کے باوجود اسلام اپنی پُرکشش تعلیمات کے سبب اس خطے میں تیزی سے پھیلا، اور صدیوں کے تعامل سے پورا خطہ اسلام کی روشنی سے جگمگانے لگا۔ سترہویں صدی عیسویں میں جب انگریزوں نے اس خطے پر یلغار کی اور بزورِ قوت اس پر قبضہ کیا تو اسے ’’مسلم برصغیر‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔ پورے خطے میں مسلم تہذیب و ثقافت کے آثار نمایاں تھے۔ انگریزوں نے اقتدار بھی مسلمانوں سے چھینا تھا اس لیے وہ مسلمانوں کو ہمیشہ اپنا حریف سمجھتے رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں سے دوستی گانٹھی، ان کی سرپرستی کی اور انہیں مسلمانوں کے مقابلے میں آگے بڑھایا۔ انڈین نیشنل کانگریس میں اگرچہ مسلم اکابرین بھی شامل تھے لیکن یہ عملاً ہندوئوں کی جماعت تھی اس کی ساری حکمت عملی ہندوئوں کے غلبے کے گرد گھومتی تھی۔ کانگریس چاہتی تھی کہ انگریز اس خطے سے رخصت ہوں تو اقتدار اس کے سپرد کرجائے اور وہ مسلمانوں کو دبا کر رکھے۔ مسلمانوں نے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کی۔ یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں محمد علی جناح کی صورت میں ایک ایسا پُرعزم اور حوصلہ مند لیڈر میسر آیا جس نے ہندو قیادت اور انگریز حکمرانوں کے چھکے چھڑا دیے اور پورے ہندوستان کو ہندوئوں کی تحویل میں دینے کا فیصلہ تتّر بتّر کردیا۔ مسلمانوں نے اپنے اس لیڈر کو قائداعظم کا خطاب دیا اور اس کی حکمت و فراست کے طفیل اپنا الگ وطن ’’پاکستان‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ الگ وطن کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا بلکہ غیر منقسم ہندوستان کا ہی حصہ تھا جو مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل تھا اور جس کی تجویز علامہ اقبال نے پیش کی تھی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جتنے مسلمان آباد تھے، اتنے ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بسے ہوئے تھے، وہ جانتے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان بنا تو وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے اور انہیں باقی ماندہ ہندوستان (جسے بھارت کا نام دیا گیا ہے) میں مسلم اقلیت کی حیثیت سے ہندو اکثریت کے ساتھ رہنا ہوگا لیکن سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہوں نے قیام پاکستان کی حمایت کی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ تحریک پاکستان مسلم اکثریت کے علاقوں کے بجائے ہندو اکثریت کے علاقوں میں زیادہ جوش و خروش سے چلائی گئی اور مسلمانوں نے اپنا مستقبل دائو پر لگا کر ایک علاحدہ اسلامی مملکت کا خواب پورا کر دکھایا۔ ہندوستان تقسیم ہوا اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر دو آزاد ملک وجود میں آئے تو انتقالِ آبادی کا کوئی فارمولا تقسیم کے منصوبے میں شامل نہ تھا۔ اور یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ جو جہاں ہے وہیں ایک وفادار شہری کی حیثیت سے اپنے ملک میں آباد رہے گا۔ مسلمان تقسیم کے بعد ہندو اکثریت کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر امن و سکون سے رہنا چاہتے تھے، ان کا نقل مکانی کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن ہندو اکثریت کے عزائم مختلف تھے، پاکستان ان کی خواہش کے برعکس قائم ہوا تھا اس لیے وہ مسلمانوں کو اس کی سزا دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ تقسیم کے فوراً بعد ہندوئوں نے اپنے علاقوں میں آباد مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا اور انہیں نہایت کسمپرسی کے عالم میں پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بلاشبہ مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد نے رضا کارانہ طور پر بھی پاکستان ہجرت کی لیکن کثیر تعداد ان لوگوں کی تھی جنہیں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اندازہ کیجیے کہ دہلی جو مسلمان حکمرانوں کا دارالحکومت رہی جس کے چپے چپے پر اسلامی تہذیب و ثقافت کے آثار موجود تھے اور جہاں مسلم اکابرین اور شرفا کی ایک بڑی تعداد رہائش پزیر تھی، تقسیم کے موقع پر اسے اس طرح تاراج کیا گیا کہ لوگ اپنا حسب و نسب ہی بھول گئے اور انہیں جان بچانے کے لیے تن کے کپڑوں میں بھاگنا پڑا۔
خیال تھا کہ یہ وقتی ہنگامہ اور عارضی بحران ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائے گا اور ہندو کیا مسلمان سب مل جل کر رہنے لگیں گے آخر وہ پہلے بھی تو صدیوں سے مل جل کر رہ رہے تھے لیکن ہندوئوں نے ہندوستان کی تقسیم کو دل سے قبول نہ کیا وہ مسلمانوں کے خلاف شدید غصے اور نفرت کا شکار ہوگئے ان کے لیڈروں نے انہیں مسلمانوں کے خلاف مزید بھڑکایا اور اپنی سیاست کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر استوار کی۔ کانگریس میں چونکہ مسلم اکابرین بھی شامل تھے اس لیے اس کی ہندو قیادت نے مسلم دشمنی پر پردہ ڈالے رکھا اور اس کا دور حکومت مسلمانوں کے لیے کسی حد تک قابل برداشت رہا لیکن جب انتہا پسند ہندو جماعتوں کو عروج حاصل ہوا اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں آیا تو یہ پردہ ہٹ گیا اور مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔ موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کی سیاست ہی مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد اور کھلی کھلی مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازع کشمیر کا تھا۔ پاکستان نے ابتدا میں سفارتی محاذ پر بہت سرگرمی دکھائی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر تسلسل کے ساتھ زیر بحث آتا رہا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بار بار زیر بحث آئیں اور ان عالمی فورموں پر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ بھارت نے اگرچہ 1948ء ہی میں کشمیر پر فوج کشی کرکے عملاً قبضہ کرلیا تھا اور ہماری سیاسی و فوجی قیادت بے عملی کا مظاہرہ کرکے اس قبضے کو چھڑانے میں ناکام رہی تھی لیکن اس نے کبھی مسئلہ کشمیر کے وجود سے انکار نہیں کیا تھا۔ وہ ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے آمادہ رہتا تھا۔ اس کے آئین میں بھی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی لیکن جب ہمارے جرنیلوں نے اپنی حدود سے نکل کر پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا اور کبھی براہِ راست اور کبھی بالواسطہ اقتدار کو یرغمال بنائے رکھا تو پاکستان مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف میں کمزور ہوتا چلا گیا اور سفارتی محاذ پر انتہائی سست روی کا شکار ہوگیا۔ پاک فوج کی جنگی تیاریوں کی بنیادی مقصد کشمیر کو بھارتی قبضے سے چھڑانا تھا، اس کے کئی مواقعے بھی آئے لیکن ہماری فوجی قیادت نے کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مواقعے ضائع کردیے۔
اس کے برعکس وہ پاکستان کے اندرونی محاذ پر اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے میں اپنی فسطائیت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پاکستان کی موجودہ تاریخ تو اس حوالے سے نہایت شرمناک ہے۔
بھارت کی پاکستان کے اندرونی حالات پر گہری نظر تھی، اس نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان داخلی طور پر ہر اعتبار سے بہت کمزو رہوگیا ہے، مسئلہ کشمیر پر اس کا سفارتی محاذ بالکل سرد پڑا ہوا ہے اور اس کی فوجی قیادت اپنی ہی قوم کو زیر کرنے میں لگی ہوئی ہے تو اس نے 2019ء میں کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کی توقع کے مطابق پاکستان نے اس واقعے پر ایک سختی سے احتجاج کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ پاکستان سفارتی سطح پر بھی خاموش رہا، حالانکہ بھارت کی کارروائی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جاسکتا تھا۔ اس واقعے کے پانچ سال بعد پاکستان میں شنگھائی سربراہ کانفرنس ہوئی، بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کا نہایت اہمت رکن ہے اس لیے اسے اس کانفرنس میں آنا ہی تھا۔ چنانچہ سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم مودی کے بجائے وزیر خارجہ جے شنکر چار رکنی وفد کے ہمراہ اسلام آباد تشریف لائے۔ انہوں نے اسلام آباد آنے سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بھارتی صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی میں پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات ہوتے رہے ہیں اب ہم نے مسئلہ کشمیر حل کردیا ہے پھر مذاکرات کیسے؟ اس طرح انہوں نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ جے شنکر نے اسلام آباد میں قیام کے دوران اپنے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار سے ملاقات ضرور کی لیکن چند رسمی جملوں کے سوا بات آگے نہیں بڑھی۔ اسحاق ڈار نے کرکٹ کا ذکر چھیڑا یعنی دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ ہونے چاہئیں لیکن وہ اس کا جواب بھی گول کرگئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کسی بھی بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ شاید وہ اس انتظار میں ہے کہ خاکم بدہن پاکستان کا کب تیا پانچا ہوتا ہے جس کی اس کے تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کررکھی ہے۔ ہم اس وقت اپنے ساتھ جو کررہے ہیں اس کے آثار اچھے نہیں ہیں۔