یحییٰ سنوارکی شہادت! ہم اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں

368

جمعرات 17 اکتوبر 2024 کی گرم اور ساکت دوپہر، جب اسرائیلی یہودی وجود اور امریکا ایک محدود مسرت میں کھو گئے، یحییٰ سنوار کی شہادت کی مسرت۔ اس آگے بڑھتے ہوئے لشکر کا ایک مجاہد جس کا نعرہ ہے ’’ہم اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں‘‘، ’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘۔ جن کے دل میں اسی شعلے سے چنگاری جلتی تھی جو ازل سے شہداء کے قلوب میں جلتا ہے۔ اللہ کی قربت کے اسرار جن کے منتظر ہیں۔ دوڑتے ہوئے لشکر وں، زمین کو دہلا دینے والی لہروں، ہوا میں پھڑ پھڑاتے ہوئے پھریروں کے درمیان جن کی شہادت اللہ کی عطا کردہ شان وشوکت ہے۔ جب انسان زندگی سے بالا ہوجاتا ہے۔

ہانپتے پھنکارتے دشمن، ان کے پیروں کی آہٹ، ڈرون کی سنسناہٹ… اور… گرد اور پسینے میں اٹا صوفے پر بیٹھا پرجوش مجاہد، ہاتھ میں بندوق، دل میںایک شادمان ٹھیرائو، کائناتی آہنگ کی آواز میں آواز ملاتا ہوا، ’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ کی طاقت ور لہروں میں بہتا، ان دیکھے افقوں سے ہمکنار ہوتا۔ یحییٰ سنواری۔ ان کی شہادت آزادی کی چکا چوندکا طلوع ہے۔ اسرائیلی یہودی وجود اور امریکا یحییٰ سنواری کی شہادت کا جشن منارہے ہیں۔ یوم حشر جن کا شمار میدان جنگ میں بغیر پیٹھ دکھائے بہادری سے لڑتے ہوئے مجاہدوں میں ہوگا۔ امریکا اور اسرائیلی یہود وجود کے خوشی سے تمتماتے چہرے ان کے دلوں میں چھپی ہوئی شدید نفرت کا اظہار ہیں۔ غزہ کے مجاہدین سے نفرت، فلسطین کے عوام سے نفرت، پوری امت مسلمہ سے نفرت۔

آج وہ خوش اور مسلمان غمزدہ ہیں۔۔ لیکن۔۔ یہ ایک عبوری مرحلہ ہے۔ فتح کے منظروں کی چاندنی، زندگی کی حرارت جلد ہی پھر ہمارے آنگنوں میں روشن ہوگی۔ کرہ ارض کے تمام رنگ پھر مسلمانوں کی خلافت کی تحویل میں ہوں گے۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ نے عرب سرزمین پر امریکی فوجی اڈے، اسرائیلی یہودی وجود پر شدید ضرب لگائی تھی۔ جب آسمان یہودیوں کے لیے سخت گیر اور زمین کرخت ہوگئی تھی۔ امریکا یہودی وجود کی مدد کو لپکا تب کہیں اس کے ہوش بحال ہوئے اور وہ مسلمانوں پر دوبارہ بمباری کرکے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوسکا۔ یہ کوشش ریت میں پانی کی طرح جذب ہوجاتی اگر امریکی امداد اور مسلم حکمرانوں کی غداریاں مسلسل اور مستقل نہ ہوتیں۔

یہ کیسی ریاستیں ہیں جو محض ایک شخص کی ہلاکت کو بہت بڑی کامیابی سمجھ رہی ہیں۔ یہ کیسی ریاستیں ہیں جو عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو زندہ جلانے اور بھوکا مارنے پر فخر کرتی ہیں۔ امریکا اور یہودی وجود پچھلے دنوں میں چند مجاہدین کے یکے بعد دیگرے مارے جانے پر خوشی سے دیوانے ہورہے ہیں، بل کھا کھا کر اترار ہے ہیںجن کی تعداد اور جنگی سامان ان کی بڑی جنگی مشین کے مقابلے میں معمولی ہیں۔ ان چند مجاہدین کو کیا اگر وہ تمام مجاہدین کو بھی ختم کردیں پھر بھی مسلمانوں میں انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ زندگی کی توثیق کرنے والا عقیدہ زندہ ہے! جہاد کا عقیدہ۔ الجہاد، الجہاد، اللہ اکبر اللہ اکبر۔ جو ایسے میں زیادہ قوت سے بروئے کار آتا ہے۔

جلے ہوئے بچوں اور خواتین کی شہادت، میدان جنگ میں سنوار کی شہادت، یہ سب ان مسلمان حکمرانوں کے چہروں پر خاک ڈالنے کے مترادف ہے جو رسوائی اور غلامی کے شیطانوں کے ساتھ اپنے محلات میں مجامعت اور شراب نوشی کے مقابلے کررہے ہیں۔ جو مسلمانوں کی تباہی اور بربادی پر محض بستروں پر کروٹیں بدلتے ہیں، منہ سے تاسف کی ہلکی ہلکی آوازیں نکالتے ہیں، اپنی پوزیشنیں بدلتے ہیں، اجلاسوں میں چھاتی پیٹتے ہیں، نتھنوں سے پھنکارتے ہیں لیکن ان کے سینے کسی غم اور تاثر سے یکسر عاری ہیں۔ جو امت مسلمہ سے غداری میں لت پت عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکا اور یہودی وجود ان کی ناک کو کیچڑ میں رگڑ رہے ہیں لیکن وہ غیرت کے ہر احساس سے عاری ہیں۔ امریکا اور یہودیوں کے سامنے ان کی عزت کے الائو ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ یہ غدار حکمران اسرائیلی یہودی وجود کا سایہ اور اس کی حفاظت کی ضمانت ہیں۔ امریکا اور اس کا فارورڈ فوجی بیس اسرائیل ایک ساتھ جاگتے اٹھتے، چلتے پھرتے، اکٹھے ہوتے دھڑلے سے اعلان کررہے ہیں کہ وہ قتل وغارت، بمباریوں اور بھوک سے مسلمانوں کو مارنے کے لیے بہت دور تک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن مسلمانوں کے محافظوں، ان کے حکمرانوں کو کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ وہ امت کے دشمنوں سے اپنی قیمت وصول کر چکے ہیں اور ان کی توقعات پر مزید پورا اترنے کے لیے آگے بڑھ بڑھ کر کفار کے مدار میں گردش کررہے ہیں۔ ان کے احساسات مردہ ہو چکے ہیں۔

گو لیوں کی آوازوں اور بمباریوں میں زندگی گزارتے وہ مسلمان جن کی زندگیوں میں صرف دکھ باقی رہ گیا ہے ان کے شرمناک وجود اور کرتوتوں پر تھوک رہے ہیں۔ کم سے کم فہم رکھنے والا مسلمان بھی اس ظلم کو سمجھتا ہے، محسوس کرتا ہے لیکن غدار مسلم حکمرانوں میں سب سے زیادہ ذہین اور عاقل بھی اس ظلم سے یکسر انجان اور احساسات سے عاری ہے۔ وہ دن دور نہیں جلد ہی امت کے ان غداروں کو چھپنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔

غزہ کے لوگ پریشان حال، لاچار اور منتظر ہیں، مجاہدین سیکڑوں لڑائیاں لڑنے کے باوجود اس عزم کے ساتھ برسر پیکار ہیںکہ وہ لڑتے رہیں گے جب تک ان کی جان نہ نکل جائے یا جب تک یہودی اس علاقے سے نہ نکل جائیں۔ مایوس کن حالات میں بھی نہ صرف مدافعت کی روح ان میں زندہ ہے بلکہ وہ امریکا اور یہودی وجود کی مشترکہ فوج، جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہوائی جہازوں میزائلوں اور ڈرونز کا مقابلہ کررہے ہیں، یہودی وجود سے زبردست جنگ کررہے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ معمولی سے چند ہتھیاروں سے لیس ہیں لیکن میدان جنگ میں اگلی صفوں سے کم لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہاں تک کہ شہادت سے سرفراز ہونے کا اعزاز حاصل کر لیتے ہیں۔

یحییٰ سنوار اور ان سے پہلے غزہ میں شہید ہو جانے والے مجاہدین نے عزم، جرأت، قربانی اور فخر کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔ مسئلہ ان پیٹھ دکھانے والوں کا ہے جنہوں نے جہاد سے گریز کیا اور مجاہدین کی مدد کے لیے نہیں آئے۔ مجاہدین کافر جتھوں کے مقابل متحرک رہے اور یہ ساکن رہے۔ دشمن ان کے سامنے سے گزرتا رہا انہوں نے نہ صرف گزرنے دیا بلکہ یہ ان کے معاون رہے۔ حالانکہ یہ دشمن کو روک سکتے تھے۔ مجاہدین کے ایک چھوٹے سے گروہ نے دشمن کو رسوا کردیا لیکن یہ بڑی بڑی مسلم ممالک کی افواج قوم پرستی کی سرحدوں کو مٹاکر ایجنٹ حکمرانوں کے تختوں کو روند کر اسلام اور جہاد کا پرچم بلند نہ کرسکیں، اللہ اکبر کا ایک نعرہ نہ لگا سکیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں اللہ ان مجاہدین کو بھلادے گا اور زمانے کو بھولنے دے گا جو آزادی کا ہراول دستہ اور فتح کا سورج بن گئے ہیں۔ مجاہدین جنت کے باغات میں شان وشوکت کے ساتھ داخل ہورہے ہیں لیکن یہ پیٹھ دکھانے والے دنیا کی حدود وقیود میں رسوائی کے بہت گہرے غبار میں گم ہو چکے ہیں۔ دنیا کی جھو لتی روشنیوں اور فانی چیزوں نے انہیں زیر کر لیا لیکن وہ اس دن کے بارے میں غور کریں جب وہ میدان حشر میں اٹھائے جائیں گے اور ان کا کوئی راز چھپا نہیں رہے گا۔