اسلام آبا د(آن لائن)وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ میں جس چیف جسٹس کی ضرورت تھی، اسے لائے ہیں، عدالت عظمیٰ میں اس وقت نسبتاً کم متنازع چیف جسٹس کی ضرورت تھی، اس وقت ایسے چیف جسٹس کی ضرورت تھی جو ٹیم بلڈر ہو، جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے ہیں اور عدالت عظمیٰ کی پریکٹس ہے،ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی 3 ججز کے پینل سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ چیف جسٹس کی تعیناتی پر سنیارٹی کم فٹنس دیکھی جاتی ہے، عدالت عظمیٰ میں بھی گزشتہ20 سال میں تعیناتیاں فٹنس کی بنیاد پر ہوئیں، پہلے بھی 3کے پینل میں سے چیف جسٹس ہائیکورٹ لگائے گئے، پہلے یہ اصول عدالت عظمیٰ کے ججز کی تعیناتیوں پر لاگو ہوتا آیا ہے، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی پر بھی یہی اصول اپنایا جاتا ہے، عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی تعیناتی پر اس اصول میں کیا قباحت ہے،سیاست میں پولرائزیشن ہو سکتی ہے کیونکہ ملٹی پارٹی سسٹم ہوتا ہے،عدلیہ میں پولرائزیشن نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ انصاف کا ادارہ ہے، کچھ عرصے سے عدالت عظمیٰ میں انتہا کی پولرائزیشن دیکھی گئی، عدالت عظمیٰ کے سینیئر ججز ہائیکورٹ میں تعیناتیوں پر یہ اصول اپناتے رہے،جونیئر جج کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سینئرز کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے، امریکا میں ججز کی تعیناتیوں کی منظوری کانگریس دیتی ہے، بھارت میں عدالت عظمیٰ کے ججز کی تعیناتیوں کا اختیار پارلیمنٹیرینز کو ہے، بھارت میں اراکین پارلیمنٹ ججز کی امپیچمنٹ بھی کر سکتے ہیں۔