ناسا کا کشش ثقل کی لہروں کے لیے جدید دوربینوں پر کام کا آغاز

100

واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے یورپی خلائی ایجنسی کے تعاون سے مل کر خلا میں کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانے کے لیے تیار کیے جانے والے 6 جدید دوربینیوں کا مکمل اسکیل پروٹو ٹائپ پیش کردیا ہے جو کہ آئندہ دہائی میں خلا میں روانہ کیے جائیں گے ۔

 اس منصوبے کو دی لیزر انٹرفیرومیٹر اسپیس اینٹینا (لیزا) مشن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دوربینیں اگلےعشرے کے وسط تک لانچ کی جاسکیں گی۔ مقناطیسی یا کششِ ثقل کی لہروں کے بارے میں البرٹ آئنسٹائن نے 2015 میں پیش گوئی کی تھی۔ یہ لہریں روشنی کی رفتار ہی سے سفر کرتی ہیں اور کائنات میں رونما ہونے والے عظیم واقعات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔

لیزا مشن کا مقصد کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانا ہے ، اس مشن کے تحت تین خلائی جہازوں پر مشتمل ایک مثلثی ترتیب میں لیزر شعاعوں کے ذریعے انتہائی درست فاصلے ناپے جائیں گے، جو پیکو میٹر (یعنی میٹر کا کھربواں حصہ) کی سطح تک ہوں گے۔

گریویٹیشنل ویوز (تجاذب پر مبنی لہریں) اسپیس ٹائم کی چادر میں پائے جانے والی شکنیں ہیں جو کائنات کے طو و عرض میں رونما ہونے والے بہت بڑے واقعات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ البرٹ آئنسٹائن نے اپنی تھیوری جنرل ریلیٹیویٹی میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ اس منصوبے کی مدد سے بلیک ہولز کے انضمام جیسے بڑے واقعات کا مشاہدہ اور تجزیہ ممکن ہوسکے گا۔

یہ وسیع خلائی جہازوں کی ترتیب تقریباً 1.6 ملین میل (2.5 ملین کلومیٹر) کے فاصلے پر مشتمل ہوگی۔ ناسا کے گڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے محقق ریان ڈی روزا کے مطابق، “ہر خلائی جہاز پر نصب جڑواں ٹیلی اسکوپس انفرا ریڈ لیزر شعاعوں کے ذریعے اپنے ساتھی خلائی جہازوں کے ساتھ رابطہ کریں گی۔”

ناسا اس مشن کے لیے تمام 6 ٹیلی اسکوپس فراہم کر رہا ہے، اور یہ پروٹو ٹائپ، جسے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ یونٹ ٹیلی اسکوپ کہا جا رہا ہے، مستقبل میں اصل آلات کی تیاری کے لیے رہنمائی کرے گا۔

یہ پروٹو ٹائپ مئی میں ناسا گڈارڈ میں ایک تاریک اور صاف کمرے میں معائنے کے مراحل سے گزرا۔ اسے زیروڈور نامی امبر رنگ کے شیشے کی سیرامک سے تیار کیا گیا ہے ۔

یہ دور بین ایل تھری ہیرس ٹیکنالوجیز (راچسٹر، نیو یارک) نے تیار کی ہے۔ مئی میں پروٹو ٹائپ دور بین ناسا کے گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں لائی گئی۔

LISA مشن کی لانچنگ 2030 کی دہائی کے وسط میں متوقع ہے، جو خلا کی وسعتوں میں کشش ثقل کی لہروں کے ذریعے فلکیاتی رازوں سے پردہ اٹھانے میں ایک انقلابی سنگ میل ثابت ہوگا۔