شیخ حسینہ واجد کے لاپتا استعفے نے نیا ہنگامہ کھڑا کردیا

138

بنگلا دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کے اشو نے بنگلا دیش میں ایک بار پھر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ طلبہ ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں اور صدر محمد شہاب الدین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کم و بیش دو ماہ جاری رہنے والی پُرتشدد طلبہ تحریک کے نتیجے میں 5 اگست کو شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوگئی تھی اور وہ فرار ہوکر بھارت چلی گئی تھیں۔ تب سے اب تک بنگلا دیش میں معاملات پوری طرح قابو نہیں آسکے ہیں۔

اب یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کا استعفیٰ کہاں ہے۔ صدر محمد شہاب الدین بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ شیخ حسینہ کا وہ خط کہاں ہے جس میں انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

ایک اخباری انٹرویو میں بنگلا دیش کے صدر محمد شہاب الدین نے کہا ہے کہ انہیں بھی نہیں معلوم کہ شیخ حسینہ واجد کا استعفیٰ کہاں ہے یا کس کے پاس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کا رسمی استعفیٰ ان کے پاس نہیں لایا گیا تھا۔ محمد شہاب الدین نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کئی بار شیخ حسینہ کا استعفیٰ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر نہ مل سکا۔

شیخ حسینہ واجد کا باضابطہ استعفیٰ اس لیے اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر انہوں نے استعفیٰ جمع نہیں کروایا تھا تو موجودہ نگراں بنگلا دیشی حکومت غیر قانونی ٹھہرتی ہے۔ نگراں حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ واجد کا باضابطہ رسمی استعفیٰ نہ ہونے کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر نگراں حکومت کی ساکھ بالکل ختم ہوسکتی ہے۔