پاکستان کے آئین میں آرٹیکل ۸ سے لیکر آرٹیکل ۸۲ تک، بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں ہدایات دیتا ہے۔ اور راقم کی حقیر معلومات کے مطابق کسی بھی علمی حلقے سے اس حوالے سے کوئی مخالفت اور تنقید نہیں آئی، چاہے وہ اسلامی دینی حلقے ہوں یا سیکولر لبرل حلقے۔ اور کسی تنقید کا آنا مشکل اس لیے بھی ہے کہ انیس سو تہتر (1973) میں اس آئین کو بنانے والوں میں جو اذہان شامل تھے ان کا تعلق معاشرے کے ہر علمی حلقے اور بازو سے تھا۔ راقم اسی اتفاق اور اتحاد کی بات مضمون میں کر رہا ہے۔
تو یہ بات کہنا نہایت حکیمانہ، عقلی اور منطقی ہوگی کہ پاکستان کے آئین کی حفاظت کرنا، اسے نافذالعمل رکھنا اگرچہ اس کی چند آرٹیکل اور شقوں پر اتفاق نہ ہو بلکہ بعض پر اعتراضات بھی ہوں، انتہائی ضروری بلکہ عین اسلامی عمل اور جدوجہد ہے۔ آئین چونکہ ریاست کے فنکشن (Function) اور اس سے بڑھ کر انسانی حقوق کے اصول اپنے باشندوں بشمول حکمرانوں پر لاگو کرتا ہے اس لیے اس کا نافذالعمل رہنا اور اس پر عمل درامد یقینی بنانے کی کوشش اور جدوجہد کرنا معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے ضروری ہے۔ دائیں سے لے کر بائیں بازو کے نظریات کے حامل لوگ، دینی یا سیکولر سب کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اس معاملے میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ اگر کوئی اپنے آپ کو انسان سمجھتا ہے تو اسے ریاست کے اندر انسانی حقوق کی ضرورت ہے اور اس میں کمی کوتاہی یا ظلم و زیادتی پر خاموشی، لاپروائی، بے حسی یا بے جا مصلحت پسندی و بزدلی کی قیمت ہر کسی کو چکانی پڑے گی۔
آئین ِ پاکستان کے یہ ۲۱ آرٹیکلز (۸تا۲۸ ) تک جو انسانی حقوق پر بات کرتے ہیں بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق ہیں۔ قرآن و حدیث اور شریعت اسلامی کی متعلقہ ہدایات، راہنمائی اور قوانین سے پْر ہے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ آئین کو اپ ہولڈ (Uphold) رکھنے والا، اس پر عمل کرنے والا، آئین کو نافذالعمل رکھنے کے لیے کام کرنے والا دراصل اسلامی احکامات کی سربلندی کے لیے ہی کام کر رہا ہے وہ اللہ اور انبیاؑ کے پسندیدہ کاموں اور احکامات کے مطابق کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی تمام ’’انتخاب‘‘، ’’انقلاب‘‘ اور انسانی حقوق کا نام لینے والی جماعتیں بھی آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہی ہیں۔ ان تمام جماعتوں کے لیے بھی انتہائی اہم ہے کہ آئین کے وہ حصے جو سب کے بھلے اور فائدے کے لیے ہیں ان کو بکھرنے اور تباہ ہونے نہ دے۔ آئین کے برخلاف ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں دخل نہ دیں۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں شفافیت ہو۔ اس میں مداخلت نہ ہو۔
اس کے علاوہ آئین کا آرٹیکل نمبر ۷۲۲ بھی اسلامی جماعتوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں اقامت دین کی سربلندی کے لیے کام کریں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات اور قوت کو بڑھانے کے لیے جدوجہد کریں۔ بعض چیزیںجو غیر اسلامی ہیں، وہ آئین میں سے ترامیم کے ذریعے نکالی جا سکتی ہیں۔ یاد رکھیں اگر آئین پاکستان پر عمل درآمد اس کی روح کے مطابق ہوتا رہے تو اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی جماعتیں اور تنظیمیں بھی پاکستان میں کھل کر کام کرسکتی ہیں۔ ان کو تحفظ اور حقوق مل سکتے ہیں۔ ان کے خلاف جابرانہ، استبدادی اور فسطائیت والے تمام کاموں کے خلاف یہ آئین اور آئینی ادارے ہی ڈھال بنیں گے (ان شاء اللہ)۔ اس لحاظ سے عدلیہ کی آزادی، خود مختاری اور شفافیت کے لیے کام کرنا بھی انتہائی اہم اور عین اسلامی کام ہے۔
گو کہ پاکستان کے آئین کے نیچے بہت سے قوانین جیسے پی پی سی، آر پی سی کی کئی دفعات اور شقیں غیر اسلامی ہیں لیکن انسانی حقوق کے حوالے سے بہت غور سے دیکھنا پڑے گا کہ کون سا قانون عین اسلامی ہے اور کون سا مباحات کے دائرے میں آتا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر ضمانت ملنے، جسمانی ریمانڈ اور جوڈیشل ریمانڈ کا قانون، تھری ایم پی او کا قانون، گرفتار کر کے جج کے سامنے پیش کرنے کا قانون گو کہ انگریز کے بنائے ہوئے ہیں لیکن اس میں کیا چیز غیراسلامی اور کیا مباح ہے یہ بات تو ایک طرف اہم ہے ہی لیکن کم از کم قانون میں جو چیز صحیح، بہتر اور عدل کے تقاضوں کے مطابق ہے، اس کے مطابق قانون پر عمل درامد جاری اور ساری رہنا چاہیے۔ اس میں کسی بھی قسم کی کمی یا گراوٹ یا اس میں رخنہ اندازی پر احتجاج اور مزاحمت کرنا ہر کسی کے لیے حسب طاقت اور مہارت انتہائی اہم ضروری ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں راقم سمجھتا ہے کہ بعض کوششیں اور منتیں اگر اْسی خلوصِ نیت سے کی جائیں جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے تو وہ عین اسلامی جدوجہد ہے۔ اس مقام پر احقر انتہائی اہم سمجھتا ہے کہ غور کیا جائے کہ کیا اس معاملے اور صورتحال پر ہمیں سیرت النبی سے کوئی رہنمائی اور ہدایت مل سکتی ہے۔ تو الحمد للہ، کم از کم دو واقعات ایسے ہیں جن کی حکمت و مصلحت پر گہرائی سے غور کیا جائے تو فہم و ادراک کے دروازے کھلتے ہیں۔ سب سے پہلے دیکھیں کہ رسول اللہؐ کو مکے کے قبائلی نظام اور اس کے زیر اثر قبائلی قوانین و روایات کا نہ صرف علم تھا بلکہ ایک طرح سے ان میں موجود مباحات کا احترام بھی تھا چاہے وہ کسی کے بھی بنائے ہوئے یا لاگو کیے گئے ہوں۔ تبھی طائف کی انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے واپسی کے بعد رسول اللہؐ نے مکے تین کے سرداروں کو دعوت بھیجی کہ وہ انہیں پناہ دیں۔ تینوں سردار مشرک تھے جبکہ مکہ کے اندر ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا حمزہ بن عبدلمطلبؓ اور دوسرے اکابر صحابہ موجود تھے۔ لیکن رسول اللہؐ نے ایک مشرک ماحول اور نظام کے ’’لا آف دی لینڈ‘‘ کو استعمال کیا جس کے تحت ایک قبیلے کا سردار یا اس کا فرد کسی دوسرے انسان کو جس کا تعلق کہیں سے بھی ہو پناہ یا حق جوار دے سکتا تھا۔ رسول اللہؐ نے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اللہ تبارک تعالیٰ کی اذن و اجازت سے مکہ کے تین مشرک سرداروں کو پیغام دیا جس میں سے مطعم بن عدی نے وہ پیغام قبول کیا۔ مطعم بن عدی کے رسول اللہؐ پر اس احسان کے باعث رسول اللہؐ نے اپنے مکی دور کے آخری تین سال بنو ہاشم کی سیاسی و قبائلی حمایت کھونے اور طائف والوں کے سلوک کے باوجود کس تحرک اور (Effective) طریقے سے گزارے اور مطعم کی حمایت کا نبی اکرمؐ کے دعوتی مشن پر کیا زبردست اثرات مرتب ہوئے وہ پڑھنے اور غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مطعم بن عدی کا رسول اللہؐ کی حمایت اور حفاظت کا شاندار مظاہرہ کرنا اس کام کو ہم کس نگاہ سے دیکھیں؟ اس پر غور کریں یا بس اللہ کی مرضی کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔ مطعم کے دماغ میں وہ کون سے اخلاقی اصول، قواعد اور انسانی شخصیت اور کردار کے کون سے اعلیٰ پہلو کار فرما تھے جس کی بدولت اس نے محسن کائنات، رحمۃ للعاملینؐ سے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا۔ (جاری ہے)