میرا یقین کریں میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں

267

ساقی فاروقی نے لکھا ہے

شام ہوتے ہی تتلی بھی ڈھونڈتی ہے ملے
کوئی جگہ وہ جہاں تھوڑی دیر سستا لے

سوشل میڈیا ایسی ہی جگہ ہے۔ خوش وقتی، تفریح اور سستانے کی جگہ۔ دوستیوںکا ایک نیا رنگ اور قالب۔ محافل یاراں سوشل میڈیا گروپس میں ڈھلتی ہوئیں۔لیکن برا ہو گمراہ کرنے والی جھوٹی خبروں، افواہوں اور سازشی تھیوریوں کا جو سوشل میڈیا اکائونٹ سے جنگل میں آگ کی طرح وائرل ہوجاتی ہیں۔ نٹشے نے کہا تھا ایک صاحب تخیل خود سے جھوٹ بولتا ہے اور ایک دروغ گو ہمیشہ دوسروں سے۔ آج کل اس دروغ گو کو سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔

دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلائو کہ کچھ رات کٹے

کہا جاتا تھا کہ جھوٹ برابر کوئی پاپ نہیں لیکن سوشل میڈیا افواہ سازی نے اس پاپ کو بھی فن بنادیا ہے اور جھوٹ کہے سو لڈو کھائے کو سچ ثابت کردیا ہے۔ چینی کہاوت ہے۔ غلط بات، غلط خبر اور افواہ ایک کان میں جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے منہ سے باہر آتی ہے۔ ڈس انفارمیشن کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ ماہرین سماجیات نے افواہوں کی تین اقسام بیان کی ہیں۔

(1) خواہشات کی تکمیل پر مبنی افواہیں۔ یہ اپنے پھیلانے والوں کی توقعات اور خواہشات کی عکاس ہوتی ہیں۔

(2) اضطرابی افواہیں جو اپنے پھیلانے والوں کے خوف کی عکاسی کرتی ہیں۔

(3) باعث تفریق یا باعث ِ نزاع بننے والی افواہیں۔ یہ اپنے پھیلانے والے کے جارحانہ مزاج، پہلے سے کوئی فیصلہ کرلینے اور کسی شخص یا عمل سے نفرت کی عکاس ہوتی ہیں۔

موجودہ دور میں غلط خبریں پھیلانا یا افواہ سازی بھی سائنس بن گئی ہے جس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے:

ایسی بات یا رائے جو ملاحظہ پذیر نہ ہو، یا ایسی رپورٹ یا بیان جو کسی نامعلوم ذریعے سے آگے بڑھا ہو، کوئی ایسی خبر یا کہانی جو گردش میں ہو جس کے درست یا یقینی ہونے کی تصدیق نہ کی گئی، جس کے منبع کے بارے میں کوئی علم نہ ہو اور جو سینہ بہ سینہ آگے بڑھ رہی ہو، افواہ کہلاتی ہے۔

افواہیں کس طرح پھیلتی ہیں۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ ایک قطار میں بیٹھے ہوئے دس افراد میں سے پہلے شخص کے کان میں جوبات کہی گئی وہ دسویں شخص تک پہنچتے پہنچتے بدل جاتی ہے۔ کامیاب افواہ وہ ہے کہ جس شخص نے افواہ پھیلائی ہو کوئی آکر اسے وہ افواہ سنائے۔ افواہ کی طاقت کا اندازہ اس واقعے سے لگا یا جاسکتا ہے کہ 7 نومبر 1918ء کو وال اسٹریٹ پر یہ افواہ اُڑی کہ ایک امن معاہدے کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوگئی ہے۔ اس افواہ کی وجہ سے وال اسٹریٹ میں کام کرنے والے خوشیاں منانے لگے۔ نیویارک کا حصص بازار وقت سے پہلے بند ہوگیا اور اسٹاک ٹریڈرز سڑکوں پر آکر خوشیاں منانے لگے۔ لیکن درحقیقت اس دن کسی ایسے معاہدے پر دست خط نہیں ہوئے تھے۔

اُڑتی پڑتی ہوئی بے کار سی افواہوں پر
سرخیاں اوڑھ کے اخبار نکل آتے ہیں

افواہ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جو کام عام طور سے نہیں ہوسکتا وہ افواہوں کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کو کوئی بات بتاکر یہ کہہ دیا جائے کہ کسی اور کو نہیں بتانا تو وہ تیسرے شخص کو ضرور بتاتا ہے اور ساتھ ہی کسی اور کو نہ بتانے کی تاکید بھی کردیتا ہے۔ کبھی ذرایع ابلاغ کے ذریعے افواہ کو یہ کہہ کر آگے بڑھایا جاتا ہے کہ آج کل فلاں افواہ پھیلی ہوئی ہے۔

چند دن پہلے لاہور میں ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’پنجاب کالج‘ کے خواتین کے لیے مخصوص گلبرگ کیمپس میں فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو اُسی کالج کے ایک سیکورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ خبر اس طرح سامنے لائی گئی کہ لاہور تا اسلام آباد طلبہ سڑکوں پر نکل آئے لیکن اس واقعہ کی حقیقت یہ نکلی کہ پوری مستعدی سے اس بچی کی تلاش اورطلبہ اور عوام سے بار بار اپیل کے باوجود متاثرہ بچی کا وجود ثابت ہے اور نہ کہیں سے اس بچی کے بارے میں کوئی معلومات شیئر کی گئی۔ یہ واقعہ 10 اکتوبر کو پیش آیا ظاہر کیا گیا ہے جب کہ جس بچی کو ریپ کا وکٹم بتایا گیا ہے وہ ٹانگ ٹوٹنے کے باعث دو اکتوبر سے اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں داخل تھی اور اس تاریخ کو کالج آئی ہی نہیں تھی۔ تمام اسپتالوں کے ریکارڈز اورکالج کے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی جانچ سے بھی اس واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ احتجاج کرنے والے طلبہ سے انڈیپنڈنٹ جرنلسٹ کے مسلسل رابطوں اور بات چیت کے باوجود کوئی مبینہ طور متاثرہ بچی کی نشاندہی نہیں کرسکا ہے۔

جھوٹ کی اس داستان اور افواہ کی طاقت یہ ہے کہ تمام تر حقائق منکشف ہونے کے باوجود لاہور سے شروع ہونے والا احتجاج فیصل آباد، جہلم، وہاڑی، بہاولپوراور روالپنڈی تک پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے خبر جھوٹی ہے لیکن وہ حقائق پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں اس نظام اور اس نظام سے جڑے کسی بھی ادارے اور فرد پر اعتبار نہیں ہے۔ اس نظام میں حکومتوں نے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ اب ان کے سچ پر بھی کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

اس افواہ پر نوجوانوں کا ردعمل دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ وہ اس نظام سے مایوس ہیں۔ وہ اس ملک میں اپنا مستقبل روشن نہیں دیکھتے۔ اس افواہ نے لوگوں کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع دیا ہے جو اس ملک میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انہیں غم وغصے سے بھر دیتا ہے۔ ملک کی حالیہ تاریخ میں ایک جھوٹ اور افواہ پرطلبہ کا اتنا بڑا احتجاج بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔