برکس سربراہ کانفرنس: روس کو الگ تھلگ کرنے کی مغربی کوششیں ناکام

121

برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا پر مشتمل سیاسی و معاشی اتحاد BRICS کی سربراہ کانفرنس ک انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ یوکرین جنگ کے حوالے سے روس کو عالمی برادری میں الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں مغربی دنیا ناکام ہوچکی ہے۔

برکس کی شکل میں ایک نئی دنیا ابھر رہی ہے جس میں وہ تمام ابھرتی ہوئی قوتیں شامل ہیں جن سے امریکا اور یورپ کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ روس اور چین کے علاقہ برکس میں بھارت بھی شامل ہے۔ یہ تینوں ممالک عالمی سیاست و معیشت میں اپنی پوزیشن منوانے کی بھرپور سکت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان تال میل سے عالمی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔

انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ روس نے برکس سربراہ کانفرنس کے انعقاد کی تیاریاں کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ مغربی دنیا سے دور اپنی الگ دنیا بسانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ بین الاقوامی امور میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے معاون نے کہا ہے کہ برکس کانفرنس میں 36 ممالک شریک ہوں گے۔ چین کے صدر شی جن پنگ، بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان اس ہفتے ہونے والی برکس سربراہ کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔

روس کے لیے یہ سربراہ کانفرنس بڑی کامیابی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا اعتماد بڑھا ہے کیونکہ امریکا اور روس کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے باوجود وہ ترقی یافتہ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ روس نے اقتصادی پابندیوں کا توڑ بھی پیش کیا ہے۔ وہ متبادل کرنسی میں ڈیلنگ کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی برآمدات پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑا۔

برکس سربراہ کانفرنس رواں ہفتے روس کے شہر کازک میں ہو رہی ہے۔ برکس ترقی پذیر ممالک کا اتحاد ہے۔ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقا بنیادی ممالک ہیں جبکہ ایران، مصر، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ ترکیہ، آذر بائیجان اور ملائیشیا نے رکنیت کی درخواست دی ہے جبکہ دوسرے بہت سے ممالک بھی اس اتحاد میں شمولیت کے خواہش مند ہیں۔