کراچی کی شان

101

یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ جو اچھے کام کرتا ہے ہم اس کا ساتھ دینے کے بجائے اس کا مذاق بناتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ نظر سے گزری جماعت کے دھرنے سے عوام کو کیا ملا؟، جماعت اسلامی کو بھی لالی پاپ ملا؟ جماعت اسلامی کو بس صرف احتجاج کرنے ہوتے ہیں فائدہ کچھ نہیں ملنا! یہ جماعت والے بس شور شرابہ کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ مبارک ہو جماعت اور حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کا تعاقب جاری رکھا حکومت کا جینا حرام کردیا جس کے نتیجے میں 5 آئی پی پیز سے معاہدے ختم، بجلی کی فی یونٹ قیمت کم ہوگی، عوام کو سالانہ 60 ارب روپے کا ریلیف ملے گا اور ابھی مزید آئی پی پیز سے بات چیت چل رہی ہے جس دن عوام جماعت اسلامی کو اپنی پارٹی سمجھ کر سپورٹ کریں گے تو حافظ نعیم الرحمن آپ کو ایک خوشحال اور باوقار قوم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کاش پیپلز پارٹی چور دروازے سے بلدیاتی نظام پر شب خون نہیں مارتی تو 5 سال میں جماعت اسلامی کراچی کا نقشہ بدل سکتی ہے مگر ان حکمرانوں کو عوام سے پیار ہے ہی کب ان کو تو بس اداروں کو تباہ کرنا اور مال کما کر نکل جانا پھر جب تمام مال ٹھکانے لگ گیا تو واپس بوٹ پالش کرکے اقتدار چور دروازے سے حاصل کرلیتے ہیں۔ آپ خود دیکھ لو تمام پارٹیاں اور لیڈرز اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے سوا کوئی کام نہیں کرتے، ان کی تمام اُٹھک بیٹھک عہدوں، وزارتوں اور مراعات میں حصہ پانے کے لیے لگی رہی۔ کسی ایک نے آئی پی پیز کے خلاف آواز بلند نہیں کی، واحد حافظ نعیم الرحمن تھے جو ان مافیا اور ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کرنے کے لیے میدان میں نکلے، دھرنے کے دوران سب سے پہلے پنجاب حکومت وہاں کی عوام کو ریلیف دینے پر مجبور ہوئی۔ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، جب تک حافظ صاحب بجلی کے ظالمانہ سلیب اور بے شمار ٹیکس ختم نہیں کروا دیتے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ حافظ نعیم اپنے آپ کو لیڈر نہیں بلکہ عوام کا خادم سمجھتا ہے، دیگر سیاسی جماعتوں نے بھرپور دولت بنائی اور جماعت اسلامی نے عزت کمائی۔

بات ہورہی ہے کراچی کی شان کی تو آج سے 10 روز قبل میں کراچی ائرپورٹ پر کھڑا اپنی فیملی کا انتظار کررہا تھا جو دبئی سے واپس آرہے تھے اسی دوران مجھے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی آواز آئی تو میں نے اس طرف توجہ دی تو دیکھا کہ ایک نوجوان پر عوام پھول نچھاور کررہے ہیں، میں اس کے پاس گیا اپنا تعارف کروایا تو اس نوجوان ریسلر نے اپنا نام اسامہ آفریدی بتایا اس کا تعلق درہ آدم خیال سے تھا مگر وہ کراچی میں پیدا ہوا اور کراچی میں رہتا ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پاکستان کا بہترین ریسلر جو نیپال سے چمپئن ٹائٹل جیت کر واپس وطن لوٹ کر آیا جب یہ نوجوان 5 سال کا تھا تو اس کو دماغ پر فالج کا اٹیک ہوا اور اس کا نچلا دھڑ بے کار ہوگیا تھا، ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے آپ علاج کروائیں باقی اللہ پر چھوڑ دیں، میرا علاج ہوتا رہا اللہ کے کرم سے 11 سال کی عمر میں بچوں کی طرح چلنا شروع کردیا پھر ہمت جاری رکھی اور 16 سال کی عمر میں مکمل فٹ ہوگیا تو والدین کی اجازت سے میں نے ریسلنگ شروع کردی، محنت کرتے کرتے ایک بڑا ریسلر بن گیا۔ 4 سال سے ان کو کوئی نہیں ہرا سکا وہ نیپال میں ایک بڑے مقابلے میں انڈیا کے ریسلر ٹائیگر کو ہرا کر پاکستان کا سرفخر سے بلند کرکے وطن واپس لوٹے۔ ہماری حکومت کو ایسے نوجوانوں کی سرپرستی کرنی چاہیے تا کہ وہ اور محنت کرکے ورلڈ ریسلنگ چمپئن بن کر ملک کا نام روشن کریں۔

نامور صحافی محمود شام صاحب نے اپنے کالم میں کیا اعلیٰ مشورہ حکومت کو دیا ہے، دیکھنا ہے حکومت کچھ کرتی ہے یا پھر ماضی کی طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتی نظر آئے گی۔ شام صاحب لکھتے ہیں کہ ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ بات ہے کہ 37 ماہ یعنی نومبر 2027ء تک کے لیے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرضے لیے گئے ہیں وہ کہاں کہاں خرچ ہوں گے، موجودہ حکومت اپنی میعاد پوری کرتی ہے تو وہ 2029ء تک ہوگی، اس دوران جب اس قرض کی مدت ختم ہوگی تو ہماری شرح نمو کیا ہوگی۔ ایک پاکستانی جو اس وقت 70 ہزار روپے کا مقروض ہے، اس پر قرض کا بوجھ یہی رہے گا یا کم ہوچکا ہوگا۔ ہم کتنا سود اور اصل زر واپس کرچکے ہوں گے۔ اس سے حکومت پر عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے، یہ 7 ارب ڈالر تو بہت ہی قابل قدر اور متبرک ہیں، وزیراعظم سمیت ہر وزیر کہہ رہا ہے کہ عمران خان نے ملک کو دیوالیہ کردیا تھا ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ اس کے لیے ہمیں کتنی قربانیاں دینی پڑی ہیں اور کتنی کفایت شعاری کی ہے، کتنے خرچے کم کیے ہیںوزیر اعظم نے آرمی چیف کا بہت شکریہ ادا کیا یہ قرض دلوانے میں ان کی محنت شامل ہے۔ ابن آدم پر تو آئی ایم ایف بھی بھروسا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب آپ کو ماضی کی اس قرض کی بندر بانٹ نہیں کرنی ہے۔

یہ قرض جو آئی ایم ایف نے دیا ہے اس پر سود کی شرح 5.9 بتائی جارہی ہے جسے میڈیا بلند ترین کہہ رہا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان دنیا میں آئی ایم ایف کے 5 مقروض ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ ایشیا میں پاکستان مقروض ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ آئی ایم ایف نے ہمیں کتنا تنگ کیا، دنیا کتنی ترقی کر گئی کہ اب قرض کے لیے بھی CV، اہلیت نامہ بار بار دیکھنا پڑتا ہے۔ قرض تو خیر سے مل ہی گیا، اب آئی ایم ایف سخت ترین شرائط کو پورا تو عوام ہی سے لے کر کیا جائے گا۔ پانی، بجلی، گیس کے بلوں میں اضافہ کریں گے، ٹیکس کو بڑھایا جائے گا، پھر پٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے، یہ بوجھ بھی غریب عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ابن آدم کہتا ہے جو رقم قرض کے طور پر لی جائے عوام کو بتایا جائے کہ کیا یہ رقم ایسے منصوبوں پر خرچ ہورہی ہے جس سے ملک کی آمدنی میں اضافہ ہوگا یا ہم مزید مقروض ہوں گے اس قرض کی پہلی قسط ملتے ہی جو اربوں کی قیمتی گاڑیاں خریدنے کی خبریں آرہی ہیں کیا یہ درست ہے، ایسا ہونا تو نہیں چاہیے قرض کے پیسے سے سیاست دانوں اور افسر شاہی کو عیاشی کرنے کا حق کس آئین نے دیا ہے اس ملک میں صرف تنخواہ دار طبقہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود پریشان حال ہے جبکہ دوسری طرف لاکھوں، کروڑوں روزانہ کمانے والے دکاندار، تاجر، صنعت کار، ریستورانوں والے ٹیکس حکام سے مل کر ٹیکس بچاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 76 سال سے حکمرانی کرنے والے ہمارے جاگیردار، سردار، چودھری، کب ٹیکس ادا کرنا شروع کریں گے۔ ہماری آئی ایم ایف سے کب جان چھوٹے گی، آئی ایم ایف کے جو قرضے حکومت لیتی ہے اس کی مانیٹرنگ کے لیے آپ کے پاس کوئی ادارہ ہے۔ ابن آدم کہتا ہے جو حکومت اپنے دور حکومت میں جو قرض لے گی وہ جاتے ہوئے اس قرض کو ادا کرنے کی پابند ہونی چاہیے، اس کام کے لیے قانون میں کون ترمیم کرے گا کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کام کو ایماندار قیادت ہی کرسکتی ہے اس لیے تو ابن آدم کہتا ہے کہ 76 سال سے حکمرانوں نے صرف ملک کو لوٹا ہے کراچی کی حالت تو سب کے سامنے ہے، اربوں روپے کھانے کے بعد بھی ان کا دل نہیں بھرا، اگر ملک کو خوشحال بنانا ہے تو ایک بار جماعت اسلامی کو آزما کر دیکھ لو یہ قوم مجھے دعائیں دے گی۔