آئین پاکستان اور فہم دین

150

’’اسلام ایک دین ہے‘‘ جب اس حوالے سے علمی یا مذہبی حلقوں میں ’’فہم دین‘‘ کی اصطلاح پر بات کی جاتی ہے تو اس کے معنی اور مفہوم عموماً یہی سمجھے جاتے ہیں کہ دین چونکہ قرآن حکیم میں بدلہ، اطاعت، قانون اور نظام کے معنوں میں آیا ہے اس لیے اسلام کے بارے میں یہ بات متفقہ طور پر کہی جاتی ہے کہ یہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسانیت کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ہدایات اور قوانین فراہم کرتا ہے جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی معاملات تک تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ قوانین ظاہر ہے، سزا اور جزا کی بنیاد پر اطاعت کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اسی بات کی سمجھ اور ادراک کو فہم ِ دین ِ اسلام یا فہم ِ دین کہتے ہیں۔

جب ہم اجتماعی معاملات کی بات کرتے ہیں تو بات معاشرت، معیشت اور سیاست کی ہوتی ہے۔ جب معاشرت کی خاص طور پر بات کی جائے کہ ہم میں سے اکثر یہ جانتے ہیں کہ معاشرت لفظ معاشرہ سے جڑا ہے اور معاشرہ عشرہ سے اور عشرہ کا مطلب دس ہوتا ہے۔ یعنی عمومی طور پر سمجھنے سمجھانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی جگہ پہ دس خاندان آباد ہو جائیں تو وہ ایک معاشرہ بننے کی ابتداً کہا جا سکتا ہے۔ وہاں بسنے والے لوگ کچھ بنیادی اخلاقی اصول و قوانین کے مطابق ہی ایک دوسرے کے ساتھ میل جول اور تعلقات استوار کرتے ہیں۔ ہم زیادہ فلسفیانہ بحث میں نہیں جائیں گے اور بات کو سادہ رکھنے کے لیے عرض کریں گے کہ اس دنیا میں علم کے، خاص طور پر میٹا فزیکل (Meta Physical) اور اتھیکل (Ethical) یعنی اخلاقیات اور اس سے جڑے مضامین پر دو ہی علم کے ذرائع یا سورسز (Knowledge Sources) موجود ہیں۔ ایک وہ جو انبیاء کرامؑ نے انسانیت کے سامنے پیش کیا، یہ کہہ کر کے ہمیں یہ علم صرف اور صرف اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے عطا کیا گیا ہے اور دوسرے وہ فلاسفہ اور حکماء جو اپنے ذہن اور عقل سے یہ سوچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کون ہے، اس کا وجہ وجود کیا ہے، انسان کا کائنات سے کیا رشتہ ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقی قدریں کیا ہوتی ہیں۔ اخلاقی عمل کے پیچھے کیا نیت اور سوچ کارفرما ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہیے۔ انسانوں اور خاندانوں کو کیسے ایک دوسرے کے ساتھ کیسے رہنا چا ہیے، انسان کے اور اس کے خاندان کے کیا حقوق ہونے چاہیے، معاشرے میں کیا اخلاقی قدریں فروغ پانی چاہیے، کن اصولوں کو پنپنا چاہیے اور کن خیالات اور باتوں کی بیخ کنی یا ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اگلے مرحلے میں سزا اور جزا کے نظام کے ذریعے انتہا پسند اور شرپسند عناصر کو کنٹرول کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تو وہ نظام کیا ہونا چاہیے؟۔ ریاست اور عوام کو اس حوالے کس عمرانی معاہدہ (Social Contract) کے تحت کام کرنا چاہیے۔ یہ وہ چند سوالات ہیں جن کے جوابات کے لیے انسانی تاریخ میں کبھی وحی کو امام بنا کر عقل و حکمت کو بروئے کار لایا گیا۔ تو کبھی وحی کو پس پشت ڈال کر خالصتاً عقل اور منطق کی پیروی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں آج ہمارے سامنے دنیا مختلف نظریات پر مبنی سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی نظاموں، روایتوں اور اصول و قواعد کے ساتھ بکھری ہوئی موجود ہے۔

بات کو اگلی منزل پر لے جانے کے لیے یہ بات نوٹ کریں کہ علم کے دونوں ذرائع میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ سب ہدایات، اصول و قوانین بظاہر ایک انسان ہی پیش کرتا ہے اور اس مشترکہ حقیقت کے باعث ہزاروں لاکھوں اختلافات کے باوجود ہزاروں ایسے بنیادی فطری اصول و قواعد، اخلاقی قدریں، بنیادی فطری، عقلی، منطقی ہدایات ہمارے پاس موجود ہیں جن سے آج کسی ذی عقل و شعور کو کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔

زندہ رہنا، روٹی، کپڑا، مکان کا حق، گھر بسانا، خاندان آباد کرنا، ان کی اور اپنی حفاظت اور معیشت کے لیے تگ و دو کرنا۔ امن و سکون سے رہنا بلکہ اس کو قائم رکھنے کے لیے اصول و قوانین بنانا۔ سزا اور جزا کے قوانین پر عمل درامد کے لیے، اجتماعی نظام چلانے کے لیے کسی کو اپنا لیڈر اور سربراہ بنانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بنی نوع انسان کی ایسی مشترکہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے انسانوں کے درمیان علم و فلسفہ اور اخلاقیات کی ساری قدروں (Values) پر اتفاق نہ بھی ہو لیکن بنیادی اخلاقیات، معروفات اور منکرات پر اتقاق ہے۔ منکرات اور جرائم سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے اس میں پھر اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی معروفات اور منکرات کیا ہیں وہ انسانیت میں متفقہ ہیں۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان حقائق اور تعلیمات کا ادراک و شعور ہر زمانے میں ہر معاشرے میں بالعموم رہتا ہے۔ انسان کی سوشو پالیٹکل (Socio-Political) ترقی میں جہاں حکومتوں کا قیام بھی عمل میں آیا وہاں حکومت اور رعایا کے فرائض اور حقوق پر بھی بات ہوئی۔ اس پر بھی دونوں ذرائع علوم میں انسانوں کو ہدایات دی گئی ہیں۔

کسی بے گناہ انسان کی جان لینا، اسے اغواء کرنا، بے گناہ قید کرنا، اس کا مال چوری کرنا، اس کے گھر میں پراپرٹی پر بلا اجازت گھسنا، ڈاکہ ڈالنا، اس کی عزت پر حملہ کرنا، تشدد کرنا، ذدوکوب کرنا، خوامخواہ بلا ثبوت الزامات لگانا، انصاف کے عمل میں صفائی کا موقع نہ دینا، گواہان اور ثبوت فراہم کیے بغیر سزا دینا، گالی دینا، بے توقیر کرنا، ظلم و زیادتی کرنا، کسی جائز حق سے محروم کرنا، کاروبار کو تباہ کرنا۔ غرض کہ یہ اور ان جیسے افعال اور حرکات کا ارتکاب اگر کوئی فرد، گروہ، قوم اور ریاست کسی بھی فرد، گروہ، قوم اور ریاست کے خلاف کرے گا تو اسے انسانوں کے تمام ہی معاشروں میں چھوٹے موٹے فرق کے ساتھ ظلم، برائی اور منکر ہی سمجھا جائے گا۔ ریاستی ادارے جن کو عوام نے ہی اپنی خواہش اور ٹیکسوں سے طاقت فراہم کی ہے وہاں ناگزیر ہے کہ وہ ادارے جیسے کہ پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیاں قانون کے تحت اپنے دائرہ کار میں کام کریں۔ ان کے باقاعدہ ضوابط، طریقہ کار اور پروٹوکول مقرر ہوں، وہ کسی نہ کسی عوامی نمائندوں کی کمیٹی کو جواب دہ ہوں گے چاہے وہ کمیٹی کتنا ہی خفیہ کام کرے لیکن اس کمیٹی کے ارکان عوامی نمائندگان ہی ہوں، عوام سے کیے گئے Social Contract کی خلاف ورزی یعنی آئین شکنی کی مرتکب نہیں ہوں وغیرہ وغیرہ یہ ساری وہ باتیں ہیں جن پر آج کے تقریباً تمام فلسفے (Philosophies) اور آسمانی علوم یکجا ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں۔

مضمون میں عمرانی معاہدے یعنی Social Contract کی بات ہوئی، یہ معاہدہ جدید ریاستوں میں آئین (Constitution) کہلاتا ہے جو ریاست اور شہریوں کے حقوق و فرائض کو متعین کرتا ہے۔ کوئی ریاست اگر نظریاتی طور پر کسی کتاب، کلام یا مجموعہ مضامین کو اپنا امام، راہنما مانتی ہو تو ایسی ریاست کو بھی بہت سارے امور اور معاملات کو سلجھانے کے لیے ریاستی آئین لکھنے اور نافذ کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اس بات کی سب سے اچھی مثال ہے۔ آئین پاکستان کن موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے وہ اپنی جگہ ایک بہت طویل موضوع ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ریاست کو چلانے، اس کے کلیدی اداروں کے قیام، ان کی تحدید و تفریق (Separation and Limits)، حکومت کی مدت اور تبدیلی کے طریقے کے علاوہ ریاست کے عوام کے ساتھ تعلقات اور اس حوالے سے اس کے فرائض کو بھی متعین کرتا ہے۔ انہی فرائض کی بنیاد پر عوام میں سے ہی کچھ لوگوں کے پاس حکومتی اور ریاستی طاقت آتی ہے۔ عوام کا پیسہ اْن کے اختیار میں آتا ہے۔ عوام ایک طرف اپنوں میں سے ہی منتخب کیے گئے حکمرانوں کو منصب اور اقتدار سونپتے ہیں، قانون کے مطابق سزا اور جزا دینے کا اختیار دیتے ہیں تو دوسری طرف یہ امید کرتے ہیں کہ یہ اپنے اختیارات اور طاقت کو آئین اور قانون کے مطابق استعمال کریں گے۔ تو آئین باقاعدہ وضاحت اور شفافیت کے ساتھ Specify کرتا ہے کہ ریاست میں شہریوں کے حقوق کیا ہوں گے۔ انسان کے حقوق کیا ہوتے ہیں اس پر اوپر بات آچکی ہے اور یہ بھی کہ وہ کیوں انسانیت میں متفقہ ہیں۔
(جاری ہے)