پاکستان اور بھارت مغرب کے دو میعار

180

بھارت اور کینیڈا تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی عروج پر ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کر کے کشیدگی کو انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ بھارت کے معاملے میں بہت کم ایسا ہوا کہ اس کے سفارت کاروں کو کسی ملک سے نکال باہر کیا گیا ہو۔ پاکستان کے ساتھ تو بھارت کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے مگر کسی مغربی ملک کے ساتھ بھارت کی کشیدگی اس درجے کو کم ہی پہنچی ہے۔ کینیڈا حکومت نے بھارت کے چھے سینئر سفارت کاروں کو اپنی سرزمین پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔ جس کے بعد بھارت نے اپنے چھے سفارت کاروں کو واپس بلالیا اور جواباً بھارتی حکومت نے کینیڈا کے چھے سفارت کاروں کو بھی واپس بھیج دیا۔ کینیڈا نے بھارتی سفارت کاروں پر خالصتان نواز سیاسی کارکنوں کے خلاف منصوبہ بندی اور ان کی ٹارگٹ کلنگ کا الزام عائد کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق کینیڈا اور بھارت کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان سنگا پور میں ایک خفیہ ملاقات ہوئی تھی جس میں بھارتی حکام نے کینیڈا میں ہونے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تردید کی، مگر بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے یہ تسلیم کیا بھارتی سفارت کار خالصتان نواز افراد کی نگرانی کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف تشدد میں ملوث نہیں جبکہ کینیڈین حکام نے انہیں بھارتی سفارت کاروں کی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوت فراہم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگا پور کی ملاقات بے نتیجہ رہی اور اس کے بعد دونوں ملکوں میں سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ معاملہ ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی بے دخلی تک پہنچ گیا۔

خالصتان نواز لیڈر ہردیپ سنگھ نجار کے کینیڈا کی سرزمین پر قتل کو کینیڈا اس قدر سنجیدگی سے لے گا شاید بھارت کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھارت نے پاکستان میں اسی طرز کی کئی وارداتیں کی تھیں اور پاکستان میں ان وارداتوں کو خاموشی میں اُڑادیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ میڈیا میں ان واقعات کی تشہیر نہیں ہو سکی تھی۔ سفارتی سطح پر احتجاج بھی نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان کے اس رویے سے حوصلہ پاکر بھارت نے آہستہ آہستہ مغربی ملکوں میں اپنے ناپسندیدہ کرداروں اور اہداف کی طرف بڑھنا شروع کیا تھا اور ہردیپ سنگھ نجار بھی ایسا ہی ہدف تھا لیکن یوں لگا کہ بھارت کا پائوں ایک دلدل پر پڑگیا اور اب وہ کینیڈا کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ رائل کینیڈین پولیس نے رواں برس فروری میں کینیڈا کی سرزمین پر بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے ذریعے انجام دی گئی مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دی تھی اور اس نے کینیڈا میں ہونے والی قتل کی وارداتوں اور بھارتی سفارت کاروں میں روابط کا سراغ لگایا تھا۔ جس کے بعد بھارت میں کینیڈا کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے احتجاج کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ کینیڈا کی طرف سے جس طرح بھارتی سفارت کاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے اور یہ کہ جسٹن ٹروڈو کی حکومت بھارت کے خلاف انتہا پسندی تشدد اور علٰیحدگی پسندی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس بنا پر بھارت کینیڈا کے خلاف مزید اقدامات اُٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بھارت کی طرف سے کینیڈا حکومت کے اقدامات کو ٹروڈو حکومت کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ قرار دیا گیا۔ اب جواب میں بھارتی حکومت نے کینیڈا کے خلاف اپنا مقدمہ گھڑنا شروع کردیا ہے جس کے مطابق کینیڈا میں مقیم کچھ گروپ ایسے ہیں جو بھارت کی سرزمین پر انڈرورلڈ کی سرپرستی کر رہے ہیں اور یہ گروپ بھارت میں کئی افراد کو قتل کر چکے ہیں۔ بشنوئی گینگ کے افراد کو گرفتار کرنے کی بھارتی درخواست کو کینیڈا کی حکومت درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اسی گینگ کے بارے میں کہا گیا کہ بالی ووڈ کے معروف فلم اسٹار سلمان خان کو قتل کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔ سلمان خان کو قتل کرنے کی سازش کی تحقیقات کے دوران جس لارنس بشنوئی گینگ کے ایک رکن کو گرفتار کیا گیا تو اس نے پاکستان میں اپنے ہینڈلر خالصتان نواز سکھبیر سنگھ کا نام بھی لیا اور ان کو چلانے والے افراد کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اب بھارت جواب کے طور پر کینیڈا کو اپنے ہاں گینگ وار اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں ملوث قرار دینے کا مقدمہ تیار کر رہا ہے۔ یوں کینیڈا اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے خلاف اس سخت موقف کا اظہار مغرب میں صرف کینیڈا کی طرف سے کیا جا رہا ہے اور امریکا سمیت دوسرے مغربی ممالک اس معاملے سے دامن بچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے مغربی ممالک کینیڈا کے ذریعے بھارت پر ایک دبائو رکھنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے معاشروں میں اپنے شہریوں کے قتل کی وارداتوں پر بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اُٹھانے سے گریز کا راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مغرب بھارت کے خلاف اس طرح کے عملی اور ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گا جس طرح کے اقدامات دو دہائیاں قبل پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر اقوام متحدہ، فیٹف، عالمی عدالت انصاف، انٹرنیشنل ہیومین رائٹس کمیشن اور آئی ایم ایف کے ذریعے اُٹھوائے گئے۔ پاکستان کو دنیا میں یکا وتنہا کر دیا گیا اور اس کے شہریوں کو دنیا بھر میں ’’نکو‘‘ بنا دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس بھارت پر معمولی سے دبائو کی حکمت عملی اپنائی جائے گی کیونکہ مغرب ہرگز نہیں چاہتا بھارت کے عالمی اور علاقائی ایجنڈے میں کوئی حقیقی رکاوٹ پیدا ہو۔ اس کے برعکس پاکستان کے بال وپر کترنا مقصود تھا سو وہ کتر دیے گئے ہیں۔ اب پاکستان لاکھ شنگھائی کانفرنس کی شہنائیاں بجائے اس کو آئی ایم ایف اور فیٹف کے ذریعے گھیسٹ کر اسی مقام پر لایا جا چکا ہے جس کی نشاندہی ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان: امریکاز ٹارچرڈ ریلیشن شپ‘‘ کے مصنف ڈینیل مارکی نے یوں کی ہے کہ: ’’پاکستان کو پر لگا کر اُڑنے کی اجازت نہیں ہاں رینگتے چلے جانے پر کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ اس اصول کے مطابق مغرب بھارت کی چٹکیاں کاٹتا رہے مگر وہ اسے مضمحل اور مجروح نہیں ہونے دے گا کیونکہ وہ دنیا میں امریکا کا دوسرا تزویراتی شراکت دار ہے۔ جب تک پاکستان عالمی طاقتوں کی طرف سے اپنے مقدر کی اس لکیر کو ہاتھ سے کھرچ نہیں دیتا سی پیک اور شنگھائی کانفرنس بس رسمی کارروائیاں ہی رہیں گی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ فی الحال پاکستان مقدر کی اسی لکیر کو حقیقی سمجھ کرقبول کرچکا ہے۔