پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی درخواست خارج ‘چیف جسٹس اور حامد خان میں تلخ جملوں کا تبادلہ

134

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی اپیل خارج کرتے ہوئے 13 جنوری کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن فیصلے پر نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔تحریک انصاف نے انٹراپارٹی الیکشن نظرثانی کیس میں کم سے کم 5رکنی لارجر بینچ کی تشکیل دینے کی نئی درخواست دائر کی تھی، پی ٹی آئی نے کیس میں آئینی تشریح کا نکتہ موجود ہونے پر لارجر بنچ بنانے کی استدعا کی۔دلائل کے لیے پی ٹی آئی کے وکیل حامدخان روسٹرم پر آئے اور انہوں نے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی اور کہا کہ لارجز بینچ تشکیل دینے کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جائے، یہ معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے اور نیا بینچ تشکیل دیا جائے، موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا، سنی اتحاد کونسل کیس میں 13 رکنی بنچ فیصلہ دے چکا ہے۔ا س دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے جس پر نظرثانی زیر التوا ہے، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ نے اپنی بات تو کرنی ہی کرنی ہے، جو کہنا ہے منہ پر کہنا چاہیے، ٹیلی ویژن پر بیٹھ نہیں کہنا چاہیے، ہمارے منہ پر جو مرضی کہیں، پیٹھ پیچھے نہیں، آپ نے دلائل کیوں نہیں دینے، جواب دیں؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے دلائل نہیں دینے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جس پر حامد خان بولے میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا، قاضی فائز عیسیٰ نے کہ منہ پر بات کرنے والے کو میں پسند کرتا ہوں۔حامد خان نے کہا میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی بولیں ایک جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں کیوں تاخیر کررہی ہے؟ انٹرا پارٹی انتخابات کرانا تو ایک ہفتے کا کام ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس میں گوہر علی خان، نیاز اللہ نیازی، علی ظفر بھی تھے، ان میں سیکوئی دلائل دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے، حامد خان بولے میں موجودہ بینچ کے سامنے دلائل دینا ہی نہیں چاہتا، کیس کے لیے نیا بینچ بنے گا تو دلائل دوں گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چلیں پھر گپ شپ کر لیتے ہیں، آپ کو سننے میں مزہ آتا ہے۔حامدخان نے کہا متعصب ہونے کی درخواست تو دی جا سکتی ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا متعصب کیوں؟ جو آئین پر بات کرے متعصب ہو گا؟ جب کہ چیف جسٹس نے کہا آپ باہر جا کر تقریر کریں۔وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہا جا رہا ہے کہ ہم نے انٹراپارٹی انتخابات کرایا ہی نہیں، ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کرایا ہے، جناب نے اسے کالعدم قرار دیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کی جماعت کا انتخابات کا آئین بہت شفاف ہے، یا تو آپ ایسے آئین کو بدل دیں یا اس کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں۔بیرسٹر علی ظفر نے روسٹرم پر آکر 26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بینچ اب یہ کیس سن ہی نہیں سکتا، نہ ہم اس کے سامنے دلائل دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں نہیں معلوم کسی ترمیم کا، ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے، ہمیں نہ بتائیں ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔