یحییٰ سنوار کی شہادت

379

بدھ کی شام اسرائیلی فوج نے رفح کے تل السطان محلے میں آپریشن کے دوران حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار اور ان کے تین ساتھیوں کو سخت مقابلے کے بعد شہید کردیا۔ یحییٰ سنوار کی شہادت نہ یہ کہ پہلی شہادت ہے اور نہ ہی آخری شہادت۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین 2004 میں غزہ میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے اسے ایک ماہ کے بعد اپریل 2004 میں شیخ احمد یاسین کے جانشین عبدالعزیز الرنتیسی غزہ میں اسرائیلی میزائل حملے میں شہید کردیے گئے۔ 31 جولائی 2024 میں اسرائیل نے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران آنے والے حماس کے سربراہ اور سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کی قیام گاہ پر حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا تھا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر حماس قیادت کی قیادت یحییٰ سنوار کے ہاتھوں میں آگئی اور اب 16 اکتوبر کو انہوں نے بھی اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ کے جانشین نے لا الہ کی حمیت اور اپنی مقدس زمین کی حفاظت کے لیے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جان جان ِآفریں کے حوالے کی۔ ان کی شہادت مزید ان جیسے جرأت مند جانشین کو جنم دے گی۔ یحییٰ سنوار ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے انہوں نے حیات فانی سے حیات جادواں کا سفر بڑی بہادری کے ساتھ طے کیا۔ وہ 1962 میں غزہ کی پٹی میں ایک محنت کش خاندان میں

پیدا ہوئے اور نوجوانی میں ہی فلسطینی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئے۔ ان کی شخصیت غیر معمولی مدبرانہ صلاحیتوں اور استقامت کا مرقع تھی۔ وہ 1989 میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوںگرفتار ہوئے اور 22 سال قیدو بند کا سامنا کیا۔ 2011 میں گیلات شالیت کے تبادلے میں شیخ یحییٰ سنوار سمیت متعدد فلسطینی قیدیوں کو رہائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے پوری زندگی ایک مقصد کے لیے گزاری اور کبھی اپنے نظریہ اور مقصد کا سودا نہیں کیا۔ وہ امید اور عزم واستقلال کے کوہ گراں تھے۔

شیخ یحییٰ سنوار کی شہادت تحریک مزاحمت اور عالمی اسلامی جدوجہد کے تناظر میں ایک المناک واقعہ ہے۔ دکھ اور کرب میں ہر بندہ مومن مبتلا ہے اور اللہ کی مدد اور نصرت کے منتظر ہیں۔ یحییٰ سنوار کا شمار ہمیشہ سے حماس کے اہم ترین رہنمائوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی زندگی فلسطینی قوم کی آزادی، قومی حاکمیت اور اسرائیلی تسلط کے خلاف نہ ختم ہونے والی جدوجہد کے لیے وقف کی۔ ان کی زندگی فلسطینی تاریخ کا اہم باب ہے۔ انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں، جلاوطنی اور سفاکیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخری سانسوں تک دشمن کے ساتھ بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی۔ شہادت کے وقت ان کی جیب میں تسبیح اور اذکار کے کتابچے نکالے گئے اور وہ فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ وہ ایک شیر ایک لیڈر ایک مجاہد کی طرح دشمنوں سے لڑے۔ ان کی شہادت عالمی اسلامی تحریکوں کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ انہوں نے ایک عظیم جدوجہد کے لیے اپنی جان قربان کی اور امت کا سر فخر سے بلند کردیا اور یہ بات بھی ثابت کردی کہ فلسطینی لیڈر شپ فرنٹ لائن پر خود لڑتے اور موجود ہوتے ہیں وہ خواتین اور بچوں کو ڈھال نہیں بناتے بلکہ عملی طور پر بے یارومدگار ہوتے ہوئے نہتے ہوکر دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ آج انسانیت کو مذہب قرار دینے والے بے حس مسلم حکمراں اور ان کے ہم نوا یہودی اور عیسائی کہاں ہیں؟ ایسے حالات میں جب جبالیہ کیمپ کے محاصرے میں چھوٹے معصوم بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں۔ خوفناک دھماکوں کی آوازوں کے بیچ یہ مظلوم لوگ کیسے زندگی بسر کررہے ہیں۔ بے حس اور بے حمیت مسلم حکمراں اور اقوام عالم ان مظلوم لوگوں کو مسلمان نہیں تو کم از کم انسان تو سمجھو اور ان مظلوم اور بے قصور لوگوں کا جرم دنیا کو بتایا جائے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ آخر کیوں انہیں اپنی ہی سرزمین پر مارا جارہا ہے۔

اسرائیلی درندگی اور مسلم حکمرانوں و اقوام عالم کی بے حسی نے آج ایک اور عظیم فلسطینی رہنما ہم سے چھین لیا ہے۔ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے بعد اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان اسرائیل کے ظلم اور درندگی کا شکار ہوچکے ہیں۔ 31 جولائی کو اسماعیل ہنیہ اور 27 ستمبر کو حسن نصراللہ کو اسرائیل نے شہید کیا تھا اور یہ شہادتوں کا قافلہ رواں دواں ہے۔ تادم مرگ لڑنے والے عظیم فلسطینی کمانڈر یحییٰ سنوار کا یہ قول کتنا حسین اور دلکش ہے اور ان کا یہ قوم پوری امت کو ایک نئی زندگی، قوت اور طاقت فراہم کرتا ہے۔ یحییٰ سنوار نے کہا کہ ’’میرا دشمن جو بہترین تحفہ مجھے دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مجھے قتل کردے اور یہ کہ اپنے دشمن کے ہاتھوں میں شہید ہوکر اللہ سے ملاقات کا اعلیٰ ترین شرف حاصل کروں۔ مجھے طبعی موت کے بجائے شہید ہوکر مرنا پسند ہے۔ میں کورونا یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے میزائل سے مرنے کو ترجیح دوں گا‘‘ بے شک مسلمانوں میں کچھ مرد ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچا کردکھایا جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا تو ان میں کوئی اپنی منت پوری کرچکا اور کوئی ابھی انتظار کررہا ہے۔ (احزاب 23)

میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر
مجھے ان صفوں میں تلاش کر