میدان کارزار کا جری

266

وہ شیخ عز الدین القسام کے بعد کسی دوبدو معرکہ میں قتل ہونے والا پہلا فلسطینی قائد ہے۔ اس کی عمر 61 سے کچھ اوپر تھی۔
دشمن نے کہا کہ وہ سیکڑوں میٹر گہری سرنگوں میں چھپا ہوا ہے۔
وہ ان کو میدان کارزار میں ملا۔
دشمن نے کہا کہ وہ ڈرتا ہے۔ بیس مغویوں کے گھیرے میں بارودی جیکٹ پہنے بیٹھا ہوا ہے۔
وہ فوجی لباس پہنے ان پر حملہ آور ہوا۔
دشمن دعویٰ کرتا رہا کہ اس کے پاس ہر وقت لاکھوں ڈالر ہیں جو وہ ساتھ رکھ کر چلتا ہے۔
اس کی کل متاع چند نوٹ اور ایک منٹوس ٹافی تھی۔ ہاں ایک نہایت قیمتی چیز اور بھی ملی۔۔۔ وہ تھا مشہور زمانہ دشمن ایجنسی سے چھینا Glock19 Gen3 پستول جو اس نے جلسے میں سرعام اپنی پتلون میں اڑسا تھا۔
دشمن نے اس کو خون آشام بلا کے روپ میں پیش کیا۔
وہ دنیا بھر کے حریت پسندوں کا قائد بن کر ابھرا
اس نے دشمن کو حیران کر کے رکھا۔
جبالیہ، بیت الحانون، دیر البلح، خان یونس، بیت لاھی، رفح یا الزیتون۔۔ وہ ہر جگہ موجود تھا۔۔۔
1980 کی دہائی میں اس نے’’مجد‘‘ بنائی۔ وہ قید ہوگیا۔ بائیس سال قید۔ مگر آج بھی اس کی بنائی ہوئی انٹیلی جنس و کاؤنٹر انٹیلی جنس نے دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں کو الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ قید ہی میں اس نے عبرانی سیکھی اور اسرائیلیوں سے خود ان کی زبان میں مخاطب ہوا۔ فنی خوبیوں سے مزین ناول لکھا۔
یہ پہلی بار بھی نہیں تھا جب وہ خط اول پر موجود تھا۔ غزہ کی ریت گواہ ہے کہ اس نے کچھ معرکوں کی براہ راست مانیٹرنگ کی اور کچھ میں خود شریک رہا۔
جب ڈرون اندر داخل ہوا۔۔۔ شیر نے منہ ڈھانپا ہوا تھا۔ فیس ریکگنیشن سوفٹویئر چہرے کی فوراً شناخت کرتا ہے۔ دشمن کو پتا چل جاتا کہ یہ وہ ہے تو وہ اسے زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کرتے۔ اس نے ذلت پر عزت کو ترجیح دی اور امر ہوگیا۔
ہم نے انس بن نضر، عاصم بن ثابت، خبیب بن عدی، حسین بن علیؓ، کے واقعات پڑھیں ہیں۔ بوسنیا، عراق، افغانستان کشمیر کے واقعات سنے ہیں۔ مگر ربّ کی شان دیکھیے کہ اس نے پوری دنیا کو وہ مناظر دکھائے ہیں کہ حجت تمام ہوگئی ہے۔
اللہ کی رحمتیں ہوں آپ پر یا ابو ابراہیم
ادب سے اس لاش کو اتارو
یہ لاشہ رحمن کا مطیع ہے
یہ پھول چہرہ بہت حسیں ہے