سینیٹ اورقومی اسمبلی سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور،پی ٹی آئی کا بائیکاٹ

210
اسلام آباد: وزیر اعظم شہبازشریف وفاقی کابینہ کے اجلا س کی صدارت کررہے ہیں
اسلام آباد: وزیر اعظم شہبازشریف وفاقی کابینہ کے اجلا س کی صدارت کررہے ہیں

اسلام آباد( نمائندہ جسارت)ایوان بالا (سینیٹ) اور قومی اسمبلی( ایوان زیریں )نے دوتہائی اکثریت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلیں۔ترمیم میں شامل 27شقوں کی الگ الگ منظوری لی گئی۔ دونوں ایوانوں سے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد ایوان صدر میں بل پر دستخط کے لیے آج پیر کو خصوصی تقریب منعقد ہوگی۔ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں صدر مملکت آصف علی زرداری منظور شدہ ترمیمی بل پر دستخط کریں گے جہاں وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر جماعتوں کے اہم پارلیمانی لیڈر شریک ہوں گے۔تفصیلات کے مطابق سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں ترمیم پیش کی۔ وزیر قانون کا کہنا تھاکہ 26 ویں آئینی ترمیم پیش کرنا چاہتا ہوں، آئینی ترمیمی بل کو ضمنی ایجنڈا پر زیرغور لایا جائے، چیئرمین سینیٹ سے درخواست ہے ترامیم کو ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایوان میں پیش کیا جائے۔مختلف جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے سینیٹ میں اظہار خیال کیا۔ بعدازاں وزیر قانون نے آئینی ترامیم پر ووٹنگ کے لیے تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن سے مکالمہ کیا کہ آپ صرف5لوگ ایوان میں بیٹھے ہیں،گنتی کیا کروں؟ آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کے لیے سینیٹ کے ایوان کے دروازے بند کیے گئے۔ حکومت کو سینیٹ میں ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت یعنی 64 ووٹ درکار تھے۔سینیٹ میں حکومت کا نمبر 58 سے بڑھ کر 65 ہوگیا 26 ویں آئینی ترمیمی بل کی شق وار منظوری لی گئی، آئین کے تحت شق وار منظوری میں ہر شق کے لیے دوتہائی اکثریت ہونا لازم ہے۔ سینیٹ اجلاس میں پہلی شق کے حق میں 65 ارکان اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، اس طرح سینیٹ میں حکومت کا نمبر 58 سے بڑھ کر 65 ہوگیا۔ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔بعد ازاں سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تمام 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی۔ اس کے بعد آئینی ترمیم کی مجموعی منظوری ہاؤس میں ڈویژن کے عمل سے ہوئی اور چیئرمین سینیٹ نے لابیز لاک کرنے اور بیل بجانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ارکان لابیز میں چلے گئے اور گنتی کی گئی جس کا اعلان چیئرمین سینیٹ نے کیا۔ آرٹیکل 48 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی کہ وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹریبیونل اورکوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی، سینیٹ نے آرٹیکل 48 میں مجوزہ ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی۔سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 81 میں ترمیم کی منظوری دے دی، آرٹیکل 81 میں ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کو شامل کردیا گیا ہے۔سینیٹ میں عدلیہ سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں ترمیم سینٹ میں دوتہائی اکثریت سے مظور کرلی گئی ہے، جس کے کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججوں تقرری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا، ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن 13 اراکین پر مشتمل ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ کمیشن میں عدالت عظمیٰ کے 4سینئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سنیئر وکیل پاکستان بارکونسل، 2اراکین اسمبلی اور دواراکین سینٹ شامل ہوں گے جو بالترتیب حکومت اوراپوزیشن سے لیے جائیں گے اور ان کی نامزدگی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈرکریں گے۔ترمیم کے مطابق آرٹیکل 175 اے کی شق 3اے کے تحت 12 اراکین پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے8، سینیٹ سے چار اراکین کو لیا جائے گا، قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام اراکین سینیٹ سے ہوں گے۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی،پارلیمانی لیڈر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اراکین اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کے مجاز ہوں گے، اسپیکر قومی اسمبلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جا ری کریں گے۔چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل سنیارٹی لسٹ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو سینئر ترین ججوں کے نام بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی تین ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرکے وزیراعظم کو ارسال کرے گی، وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر کے لیے نام صدرکو ارسال کریں گے۔سینیٹ سے منظورہونے والی ترمیم کے مطابق سنیارٹی لسٹ میں موجود نامزد ججوں کے انکار پر پارلیمانی کمیٹی اگلے سنیئر ترین جج کے نام پر غور کرے گی، پارلیمانی کمیٹی نامزدگیوں پر اس وقت تک جائزہ لے گی جب تک چیف جسٹس کا تقرر نہ ہوجائے۔26ویں آئینی ترمیم کے منظوری کے بعد چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل نام پارلیمانی کمیٹی کو بجھوانے کے پابند ہوں گے اور چیف جسٹس کی تعنایت کے لیے خصوصی پارلیمانی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا، قومی اسمبلی تحلیل ہوجانے کی صورت میں دو اراکین سینیٹ سے لیے جائیں گے، آرٹیکل 68 کا اطلاق چیف جسٹس تقرری سے متعلق قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی پروسیڈنگ پر نہیں ہوگا۔ترمیم میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کو ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ بنیادوں پر کارگردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہوگا، ہائی کورٹ میں جج کی تقرری غیر تسلی بخش ہونے پر کمیشن جج کو کارگردگی بہتر بنانے کے لیے ٹائم فریم دے گا اور دی گئی ٹائم فریم میں جج کی کارگردگی دوبارہ غیر تسلی بخش ہونے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بجھوائی جائے گی۔ترمیم کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس ہائی کورٹس یا کمیشن میں موجود ججوں کی غیر تسلی بخش کارگردگی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی، سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے جج کو مذکورہ ترمیم کے تحت ہٹایا جا سکے گا، کونسل جسمانی یا ذہنی معذوری، غلط برتاؤ اور دفتری امور بہتر انجام نہ دینے پر کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی درخواست پر انکوائری کرے گا۔آئینی ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل بنا تاخیر کے6 ماہ کے اندرمتعلقہ ججوں سے متعلق انکوائری مکمل کرنے کا پابندی ہوگی، جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں فرائض کی انجام دہی میں قاصر، بد تمیزی یا غیر تسلی بخش کارگردگی کے مرتکب ہونے پر صدر مملکت کو کارروائی کا اختیار ہوگا۔صدر مملکت کے پاس جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر عدالت عظمیٰ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہوگا، ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن کا اجلاس ایک تہائی اراکین کی درخواست پر بلایا جا سکے گا، چیئرمین کمیشن کسی بھی درخواست پر 15 دن کے اندرکمیشن کا اجلاس بلانے کا پابند ہوگا۔سینیٹ سے منظوری ہونے والی آرٹیکل177 میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا، آرٹیکل177 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے ہائی کورٹ میں بطور جج 5 سال کام کرنے کی حد مقرر ہوگی، کسی بھی وکیل کا سپریم کورٹ جج بننے کے لیے بطور وکیل 15 سال کی پریکٹس لازم ہوگی۔آئین کے آرٹیکل179 میں ترمیم بھی دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے، جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان 65سال کی عمرمیں ریٹائرہوں گے۔ سینیٹ نے آرٹیکل184 میں ترمیم کی بھی منوری دے دی، جس کے تحت سپریم کورٹ کا ازخودنوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا ہے اور آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورا از خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا۔ آرٹیکل 186 اے میں ترمیم بھی سینیٹ میں منظور کرلی گئی، جس کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50 ہزار روپے سے بڑھا کر10 لاکھ روپے کر دی گئی۔سینیٹ سے منظور ہونے والے آئین کے آرٹیکل187 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروری کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا۔آئین میں آ رٹیکل 191 اے شامل کرنے کی ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کی گئی ہے جو دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی، آرٹیکل191کے تحت آئینی بنچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی، سپریم کورٹ میں ایک سے زیا دہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جاسکے گی اور سپریم جوڈیشل کونسل آئینی بینچز کے ججوں اور ان کی مدت کا تعین کرے گی۔آئینی بینچز میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی، اس شق کے تحت کوئی حکم سپریم کورٹ کے زیراختیار اوراستعمال کردہ کسی دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ منظور نہیں کیا جائے گا، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی بینچ مذکورہ دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا۔آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججوں سے کم ججوں پر مشتمل ہوگا، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سینئر جج آئینی بینچوںکی تشکیل دیں گے، زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بنچوں کو منتقل کیے جائیں گے۔آئین کے آرٹیکل 193 میں ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کی گئی، جس کے تحت دہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص ہائی کورٹ کا جج نہیں بن سکتا، آئینی ترمیم میں ہائی کورٹ جج کے لیے 40 سال عمر اور10 سال تجربے کی حد مقرر ہوگی۔آئین کے آرٹیکل 199 اے میں ترمیم سینیٹ سے منظور کرلی گئی، جس کے تحت ہائی کورٹ دائر درخواست کے مندرجات سے باہرازخود کوئی حکم یا ہدایت کا اختیار نہیں ہوگا۔سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل209 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا، آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا، سپریم جوڈیشل کونسل 5 اراکین پر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس آف پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے، سپریم کورٹ کے 2 سینئر جج اور ہائی کورٹس کے 2 سینئر ججز کونسل کا حصہ ہوں گے۔آرٹیکل 215 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی، جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین اپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے اور اس ترمیم کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کی بھی منظوری دی گئی، اس ترمیم کے تحت کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانا نا قابل عمل ہونے پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حلف لینے کے مجاز ہوں گے۔سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم جیسے ہی آرٹیکل 255 میں ترمیم کی منظوری دی گئی، اسی وقت شق وار منظور ہوگئی، ترمیم کے حق میں 65 اراکین نے ووٹ دیا، 26 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہونے کے بعد گھنٹیاں بجا کر لابی کے دروازے بند کرنے کی ہدایت کردی گئی۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد لابیز کی تقسیم کا اعلان کیا اور آئینی ترمیم کے حق میں ارکان کے لیے دائیں ہاتھ کی لابی اور مخالفت کے لیے بائیں جانب کی لابی مقرر کی گئی، لابی سے باہر دستخط کے لیے رجسٹر اور سینیٹ کا عملہ موجود تھے اور اراکین سینیٹ رجسٹر پر دستخط کر کے لابی میں داخل ہوئے۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کردیا اور کہا کہ بل کے حق میں 65 اراکین نے ووٹ دیا اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، یوں حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد سینیٹ کی مجموعی تعداد کی دوتہائی سے کم نہیں ہے، جس کے نتیجے میں یہ ترامیم منظور ہوگئی ہیں۔ آئینی ترامیم کے حق میں حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ ارکان نے ووٹ دیا۔ سینیٹ کا اجلاس منگل 22 اکتوبر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ اختر مینگل کو سینیٹ گیلری سے نکال دیا گیا۔ سینیٹ گیلری سے نکالے جانے کے بعد اخترمینگل نے بتایاکہ مجھے خاتون سیکورٹی اہلکار نے گیلری سے نکالا،میرا اپنی پارٹی کے اغوا شدہ ارکان سے آمنا سامنا ہورہا تھا،میں نے سب کی چوری پکڑی تو حکومتی وزرا کے پسینے نکل گئے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترمیم اقتدارمحفوظ بنانے کے لیے جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے۔ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے ہمارے دونوں سینیٹرز استعفیٰ دیں ورنہ پارٹی سے برطرف کردیا جائے گا۔رات میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگا جہاں جے یوآئی کی حمایت کے باجود حکومت کے 5ووٹ کم پڑگئے۔ بعد ازاں اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کے بھانجے ظہور قریشی ، چودھری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، اورنگزیب کھچی سمیت 6منحرف اراکین ایوان میں لائے گئے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ن لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف ایوان میں پہنچے، اراکین نے ڈیکس بجا کر استقبال کیا اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی نواز شریف کے ہمراہ موجود تھے۔بعد ازاں مولانا فضل الرحمن بھی ایوان میں پہنچ گئے اور نواز شریف سے ان کی نشست پر جاکر مصافحہ کیا۔اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ایوان کا اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا اور کہا کہ اب اسمبلی کا اجلاس پیر کو 12 بج کر 5 میں دوبارہ شروع ہوگا۔قومی اسمبلی کا اجلاس مختصر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوا اور وزیرقانون نے آئینی ترمیم کے حوالے سے تفصیلات پیش کیں اور ان کے بعد بلاول ، عمر ایوب، خواجہ آصف ، مولانا فضل الرحمن ، بیرسٹر گوہر اور فاروق ستار نے خطاب کیا۔رات پونے 4 بجے قومی اسمبلی میں ترمیمی بل سے متعلق رائے شماری کا عمل شروع ہوگا، ترمیمی بل پیش کرنے کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ مخالفت میں 12 ارکان نے ووٹ دیا۔ حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔پی ٹی آئی اراکین نے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔ بعد ازاں تمام شقوں کی الگ الگ منظوری لی گئی، ترمیمی بل کے حق میں 225 اور مخالفت میں 12 ووٹ ڈالے گئے۔علاوہ ازیں سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے مجموعی طور پر ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں، صرف سینیارٹی ہی نہیں فٹنس بھی بڑی چیز ہوتی ہے۔اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرکے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہ اگر تحریک انصاف اپنے ارکان پرتشدد کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لے رہی تومیں حامی ہوں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے مل کر ایک محنت اور کوشش کی ہے لیکن کسی پارٹی پرجبر نہیں کرسکتے، میں نے کہا کہ آئینی ترمیم کو ججز، شخصیات سے منسلک نہ کیا جائے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمن کا کردار تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، آپ سب کو 26 ویں آئینی ترمیم کا دن مبارک ہو۔پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج میں نے مولانا سے فون پر رابطہ کیا اور ان کا جتنا شکریہ ادا کروں وہ ناکافی ہے، مولانا کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے سینیٹرز کو پہنچنے کے لیے ہدایات دی۔انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے خود سینیارٹی کے ساتھ میرٹ کی بات کی ہے۔ چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ایک جج نے مجھے اور آصفہ بی بی کو وہ انصاف دیا جو کوئی کبھی نہیں دے سکا، اس جج نے مشرف کو سزا دی اور فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیا۔