کرائے دار

344

کرائے کے گھر سے بیزاری کی وجہ ہر گز یہ نہیں تھی جو اس شعر میں بیان کی گئی ہے
ہمارا عشق ظفر رہ گیا دھرے کا دھرا
کرائے دار اچانک مکان چھوڑ گیا
سر راہ مل گئے تھے۔ ہم نے اپناتعارف کروایا۔ جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ’’اخباری دنیا میں دھوم ہمارے قلم کی ہے‘‘ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے ’’آپ حنظلہ صاحب کے کرائے دار ہیں ناں‘‘۔ راشد صاحب کی بات سے دل پر گھونسا سا لگا تھا۔ گویا ہماری کوئی شناخت ہی نہیں۔ کوئی پہچان ہی نہیں۔ کرائے دار ہونا ہمارا واحد حوالہ ہے۔ کرائے دار ہونا اتنا ہلکا ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔
کرائے دار ہونا اس لحاظ سے ہمارے لیے خوشی کا باعث تھا کہ اس حوالے سے ہی سہی چند عظیم شخصیات سے ہمارا تعلق تو ہے۔ بلی ماراں کی پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں کا وہ مکیں بھی جسے یہ زعم تھا ’’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے‘‘ کرایہ دار تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی جاوید منزل میں کرائے پر رہتے تھے۔ جاوید منزل علامہ اقبال کی بیگم نے ان کے اصرار پر مرنے سے پہلے جاوید اقبال کے نام ہبہ کردی تھی اور علامہ بطور کرائے دار جاوید اقبال کو ہر ماہ کرایہ ادا کرتے تھے۔ رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی آٹھ نوسال کے تھے جب اپنے چچا کے ایک کرائے دار کی بیوی کا حسن ان کی آنکھوں میں سما گیا تھا۔
جب بھی اپنا ذاتی گھر بنانے کی سوچی بشیر بدر مانع آگئے۔ لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں۔ پھر خیال آیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں میٹر ریڈر اپوزیشن لیڈر بن جاتے ہیں، ایک سینما سے ترقی کرکے آدمی صدر مملکت بن سکتا ہے۔ فائلوں کو پہیے لگا کر آدمی بستیوں کی بستیاں تعمیر کرتا چلا جاتا ہے۔ وہاں ایک گھر بنانا کیا مشکل ہے۔ بس ذرا اندر سے ٹوٹنا ہوگا۔ ایک ایسے کالم نگار جن کے اندر نے ٹوٹنے سے انکار کردیا تھا، انہوں نے اپنے کسی کالم میں وزیر اعظم کو چور لکھ دیا۔ تھانے میں طلبی ہوگئی۔ تھانیدار نے پوچھا ’’اوئے تونے ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو چور لکھا ہے؟‘‘ کالم نگار نے بات بدلنے کے لیے کہا ’’جی! وہ تو میں نے دوسرے ملک کے وزیراعظم کو چور لکھا ہے‘‘۔ تھانیدار نے غصہ سے کہا ’’اوئے ہمیں بے وقوف سمجھتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کس ملک کا وزیر اعظم چور ہے‘‘۔
وہ لوگ جنہیں باپ دادا سے گھر ورثے میں مل جاتے ہیں وہ اندازہ نہیں کرسکتے اپنا گھر بنانا کتنا دشوار کام ہے۔ 80 گز اور 120 گز کا مکان تو درکنار دو تین کمرے کا فلیٹ خریدنا بھی کتنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ اچھے خاصے عزت دار گھرانوں کی بچیوں کے رشتے محض کرایہ دار ہونے کی بنا پر انکار کردیے جاتے ہیں۔ عزیز واقارب کی نظر میں آپ ان کے ہم پلہ نہیں ہوتے۔ بار بار اسکول بدلنے سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ کرایہ پابندی سے دینے کے باوجود ہر ماہ مالک مکان کسی نہ کسی بات پر کرایہ دار کی عزت نفس مجروح کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ اچانک مالک مکان کی کوئی گمنام اولاد جس کا اس نے کبھی تذکرہ بھی نہ کیا ہو کہیں سے برآمد ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے مالک مکان دھمکی دے جاتا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر گھر خالی کردیجیے یا پھر کسی بچے یا بچی کی شادی کی وجہ سے مالک مکان کو فوری طور پر اس گھر کی ضرورت ہے جس میں آپ کرایہ دار ہیں۔
گیارہ ماہ گزرنے کے بعد چونکہ آپ کے ایگریمنٹ کی مدت ختم ہورہی ہے لہٰذا دوچار ماہ پہلے ہی مالک مکان آپ کو وارننگ دینا شروع کردیتا ہے کہ بندوبست کر رکھیے آپ کو فلاں تاریخ کو گھر خالی کرنا ہے۔ آپ گھر خالی کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو پہلے اہل محلہ آپ سے دریافت کرنا شروع کردیتے ہیں، پھر محلے کے شرفا بھیجے جاتے ہیں، آپ ان کے قابو میں بھی نہیں آتے تو مالک مکان کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ غنڈے اور بدمعاش آ آکر آپ کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیتے ہیں۔
راحت اندوروی نے کہا تھا:
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سویلین حکومتیں بھی کرائے کے گھر جیسی ہوتی ہیں۔ نہ جانے کب اصل مالکوں کی طرف سے گھر خالی کرنے کا نوٹس آجائے، کب بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر کوئی عزت مآب چیف جسٹس طیش میں آجائیں اور حکومت کو چلتا کردیں۔ سویلین حکومتوں سے کرائے کے گھر خالی کرانے کے لیے اتنے حربے آزمائے جاتے ہیں کہ سویلین حکومت لاکھ ’’اڑی‘‘ کر ے کسی نہ کسی ترکیب سے گھر خالی کروالیا جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی جن دنوں عمران خان کے دھرنے میں شریک کنٹینر پر کھڑے رہتے تھے ان دنوں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کے دھرنے کے دوران جنرل طارق اور اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کے ساتھ مل کر نواز شریف کی حکومت کوختم کرنے کے لیے جوڈیشل مارشل لا کا پرو گرام بنایا گیا تھا۔ لیکن کامیابی نہ مل سکی کیونکہ نواز شریف نے گھر جانے سے انکار کردیا تھا اورکہا تھا کہ ٹیک اوور کرنا ہے تو کرلو لیکن پھر ان کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ کسی طریقے سے عدلیہ کو استعمال کیا جائے۔
حکومتوں کی آنیوں اور جانیوں سے ایسا ہی گمان ہوتا ہے جیسے مالک مکان کرایہ دار سے گھر خالی کرانے کی تگ ودو کررہا ہے۔ حالانکہ کرایہ دار پانچ سال کا ایگریمنٹ کرکے اور عوامی حمایت کی قیمت دے کر وزیر اعظم ہائوس کا رہائشی بنتا ہے لیکن کچھ ہی دن بعد اس کا وجود مالک مکان کو کھلنے لگتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈیڑھ دوسال میں ہر مرتبہ وزیراعظم ہائوس خالی کرالیا گیا۔ یہی کیفیت نواز شریف کے ساتھ رہی۔ ایک مرتبہ انہوں نے تڑی دکھائی تو زنداں میں بند کردیے گئے، معاملہ سوئے دار رواں تھا کہ تقدیر نے یاوری کی اور وہ بھٹو جیسے انجام سے بچ گئے۔ جناب آصف علی زرداری نے ایوان جمہوریت کا ایک حصہ اصل مالکان کے لیے خالی کردیا تھا اور امور خارجہ اور دفاع کے کمرے مالکان کے قبضے میں دے دیے تھے پھر بھی میمو گیٹ کی صورت انہیں مالک مکان کی دھمکیوں کا سامنا رہا۔
جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ثابت ہورہا ہے جو مستحکم حکو متیں دینے میں ناکام ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک میں جہاں جمہوریت بہت مستحکم نظر آتی ہے وہاں بھی حکومتوں کے لیے دل جمعی سے اپنے منصوبوں پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کا تسلسل جمہوریت کا کارنامہ نہیں ہندوتوا کی عصبیت کا نتیجہ ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت غربت اور دیگر عوامی مسائل کے حل میں ناکام نظر آتی ہے۔ شائننگ انڈیا کی نمائشی چکا چوند کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔ رہے مغربی ممالک تو ان کی خوشحالی جمہوریت کی بنا پر نہیں دنیا بھر میں ان کے استعماری کردار کی وجہ سے ہے۔ انسانیت کے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ جب زکوۃ کی رقم لینے کے لیے ضرورت مند نہیں ملتے تھے۔