آپ کی سوچ خطرے میں ہے

254

آج کی دنیا حقیقی ماحول سے کہیں زیادہ سائبر اسپیس میں جی رہی ہے۔ بیداری کی حالت میں لوگ ہر وقت سیل فون سے جْڑے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے شغف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ لوگ کھانے پینے کے معاملات کو بھی ایک طرف ہٹادیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ذہنی غلامی نے ہماری زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ امریکا میں ایک بڑے تحقیقی ادارے نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنے یوزرز کی سرگرمیوں کو بہت اچھی طرح مانیٹر کرتے ہیں۔ اس سے انہیں بہت کچھ سمجھنے اور منصوبہ سازی کا موقع ملتا ہے۔ ایک بڑی سہولت یہ ہے کہ سوشل میڈیا یوزرز کے رجحانات سے کاروباری ادارے بھی بہت کچھ سمجھنے اور منصوبہ سازی کے قابل ہوگئے ہیں۔
فیس بک، یوٹیوب، انسٹا گرام، ٹیلی گرام، ایکس اور دیگر بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لوگ جو کچھ دیکھتے اور لکھتے ہیں اْس کے تجزیے سے مارکیٹنگ کی ریسرچ سے وابستہ افراد کو بہت کچھ سمجھنے اور لوگوں کے رجحانات کے تعین میں مدد ملتی ہے۔ انسٹا گرام، فیس بک اور ایکس پر جو تبصرے جاری کیے جارہے ہیں وہ انفلوئنسرز اور مارکیٹ ریسرچرز کے لیے غیر معمولی معاونت کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ان تبصروں سے انہیں مارکیٹنگ اسٹرٹیجی کے تعین میں مدد مل رہی ہے۔ حکومتی بھی اس ذریعے سے بھرپور فائدہ اٹھارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کمنٹس سیکشن حکومتوں کو بھی عوام کا ذہن سمجھنے میں مدد دے رہا ہے۔ بڑے کاروباری اداروں کی تو بہت حد تک چاندی ہوگئی تھی کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے کمنٹس سیکشنز کے ذریعے اپنی پروڈکٹس کی تشہیر بھی بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور یوں اْن کے لیے مزید منافع کمانے کی گجائش پیدا ہوتی جارہی ہے۔
انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اب بڑے کاروباری اداروں کے ایجنٹ ہوکر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنی ویڈیوز اور دیگر پوسٹس کے ذریعے لوگوں کے مزاج پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے کمنٹس سیکشنز معاشرے کو تقسیم کرنے کے باوجود بڑے برانڈز کے لیے مزید پنپنے کی گنجائش بھی پیدا کر رہے ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں نے اپنے برانڈز کے فروغ کے لیے انفلوئنسرز کی خدمات حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔ انفلوئنسرز کسی بھی چیز کی کمپین اس طور چلاتے ہیں کہ متاثر ہونے والوں کو یہ اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ اْنہیں نشانے پر لیا جاچکا ہے۔ وہ غیر محسوس طور پر بعض چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور بعض چیزوں کو مسترد کرتے چلے جاتے ہیں۔
جدید برانڈز مینیجرز یعنی سوشل میڈیا انفلوئنسرز اپنی ٹارگیٹ آڈینس کو زیادہ سے زیادہ متاثر اور مغلوب کرنے کے لیے جدید ترین نفسیاتی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے پیغامات میں ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو بظاہر کسی کے لیے جھکاؤ نہیں رکھتی مگر در حقیقت کسی ایک یا چند خاص معاملات کی طرف واضح جھکاؤ رکھتی ہے۔ اس معاملے میں زبان و بیان کا انداز بہت سوچ سمجھ کر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ کمنٹس سیکشنز کے تجزیے کی بنیاد پر کسی بھی برانڈ کے فروغ کی حکمت ِ عملی تیار کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی غالب اکثریت غیر محسوس طور پر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے اور پھر دوسروں کی آرا کا جائزہ لیتے لیتے وہ کب دوسروں کی مرضی کے مطابق تبصرے کرنے لگتی ہے اس کا خود اْسے بھی اندازہ نہیں ہو پاتا۔ کمنٹس سیکشنز کھنگالیے تو ہزاروں افراد مختلف آرا کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ آرا آپ کی نفسی ساخت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اگر آپ الرٹ نہ ہوں تو غیر محسوس طور پر ایسی باتیں اپناتے چلے جاتے ہیں جن کا آپ کی فکری ساخت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ ہی مدت میں آپ دوسروں کی مرضی کے مطابق سوچنے لگتے ہیں اور دوسروں کی مرضی کی چیزیں کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ غیر محسوس طور پر یا لاشعوری سطح پر ہوتا ہے۔ ماہرین ِ نفسیات خبردار کرتے ہیں کہ اپنی سوچ کو درست رکھنا خود کار عمل نہیں بلکہ اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔
سوشل میڈیا انفلوئنسرز نفسیات کے میدان میں کی جانے والی جدید ترین تحقیق کا سہارا لیتے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے سوشل میڈیا سیکشن قائم کررہے ہیں۔ وہ ماہرین یعنی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی خدمات حاصل کرکے کاروباری اہداف آسانی سے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ برانڈنگ اور ایڈ کمپیننگ کا جدید ترین طریقہ ہے اور اس پر بہت زیادہ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ عام آدمی کی سوچ کے کسی خاص سانچے میں ڈھلتے چلے جانے کے عمل کو اسٹیریو ٹائپنگ کہتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی بھی معاملے کسی سوچ کا حامل ہو جائے تو ہم ایسی سوچ کو ہم اسٹیریو ٹائپ کہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں تعصب یا جھکاؤ پیدا ہوتا ہے اور پھر یہی چیز تنافر کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ کسی خاص مذہبی یا نسلی کمیونٹی کے بارے میں کوئی سوچ پروان چڑھادی جائے تو پھر لوگ اْسی سوچ کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ مثلاً مسلمانوں کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تاثر پروان چڑھادیا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ڈاڑھی رکھتا ہے۔
پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور شرعی اصولوں کے مطابق کپڑوں اور دیگر معاملات کا خیال رکھتا ہے تو وہ یا تو رجعت پسند ہے یا پھر انتہا پسند۔ اور یہی نہیں، اْسے دہشت گرد سمجھنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اس دور میں عام آدمی کو ہر وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ فکر و نظر کے حوالے سے پھیلائے ہوئے دام میں پھنسنے سے محفوظ رہے اور خالص غیر جانب دارانہ سوچ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکے۔