شنگھائی اجلاس اور فتنہ پردازوں کی فتنہ پردازیاں

268

شنگھائی تعاون تنظیم کا انعقاد اچھی بات ہے۔ اپنے سیاست دانوں سے فروعی اور فضول باتیں سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ بہتر ہے دیگر ممالک کے سیاست دانوںکے نظریاتی چونچلوں اور کہہ مکرنیوں سے بھی دو دن کے لیے ہی سہی جی بہلایا جائے۔ ہماری جدوجہد انگریزوں سے زیادہ ہندئوں سے آزادی کے لیے تھی لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر ہندوستانی وفد ہی ہمارے لیے مرکز نگاہ تھا۔ ایس سی او کے اسلام آباد اجلاس میں وزیراعظم نریندر مودی کی نمائندگی بھارتی وزیر خارجہ نے کی۔ نہ جانے کیوں انہوں نے اجلاس کے موقع پر پاکستان سے بات چیت کے امکان کو مسترد کرنا ضروری سمجھا۔ معاملہ پاکستان کا ہو تو مودی کا ہندوستان چھوٹی چھوٹی انائوں کے دائرے میں مقید دیوانگی کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔ پاکستان میں کس پاپی نے بھارتی وزیر خارجہ سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان سے مذاکرات کس ایجنڈے کا حصہ تھے؟

ایس سی او کے سرفروشوںکا ایجنڈا عالمگیریت کا خاتمہ ہے۔ وہ عالمگیریت جس سے مغرب کا مفاد وابستہ ہے۔ مودی جی کو اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام سے کمٹڈ امریکا اور اہل یورپ کی محبت سے سرشار ہیں جن سے الگ ہوکر وہ کسی تبدیلی کے نقشے میں رنگ نہیں بھرسکتے۔ اجلاس کے حوالے سے عالمی معاملات کو فوکس کرنے کے بجائے بھارتی میڈیا بڑی نخوت سے پاک بھارت مذاکرات کے عدم انعقاد کے بحر بیکراں میں غوطے کھاتا رہا۔ بھارتی میڈیا ہر جھمیلے کو محض اور محض بھارت کے نکتہ نظر سے دیکھتا ہے۔ یوکرین جنگ کو عالمی تناظر میں دیکھنے کے بجائے بھارتی میڈیا روس کے سستے تیل پر اپنی للچائی نظریں گاڑے رہا۔ لالچ اور پیسہ ہندوتوا کی بنیادوں میں ہے۔ بنگلا دیش میں تبدیلی پر بھی وہ زیادہ وقت ہندو اقلیت پر تشدد کا رونا روتا رہا۔

ایس سی اوکا اجلاس اس وقت ہوا ہے جب مغرب نے اسرائیل کو اہل غزہ کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں مغرب نے جس طرح آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے کہ لبنان یمن شام اور ایران میں یہودی وجود کی دہشت گردی کی کارروائیاں تیز ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کا تنازع کسی بھی وقت ایسا طوفان بن سکتا ہے جو عالمی منظرنامے کو ہلاکر رکھ سکتا ہے۔ یہ بھارت کا کمال ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہونے کے باوجود بھارت کے کردار پر کم ہی بات کی جاتی ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کا استعمال اہل غزہ کی ہلاکت اور بربادی کی صورت میں نکلے گا بھارت اسرائیل کو مہلک ترین ہتھیار فراہم کرنے کی دوڑ میں بہت آگے ہے۔

قبل مسیح کے ایک دانشور کا کہنا تھا کہ اپنے دوستوں کو قریب رکھو اور اپنے دشمنوں کو قریب تر۔ چانکیہ مزاج سے بہت قریب تر ہونے کے باوجود مودی جی کی ہندوتوا انہیں مسلمانوں اور پا کستان سے دور دور ہی رکھتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی بھی اگرچہ مسلم دشمنی کے اسی ہندوتوا نظریہ کے ساختہ وپرداختہ تھے مودی جی جس کے خونیں استعمال کے بڑے کھلاڑی ہیں لیکن ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد انہوں نے اس زیرو سمٹ کانفرنس میں شرکت کی تھی جس میں نوازشریف بھی شریک تھے۔ نوازشریف کے دور میں انہوں نے مینار پاکستان پر بھی حاضری دینے سے گریز نہیں کیا تھا لیکن مودی جی کی ہندوتوا پاکستان کے باب میں اس طرح کی خیرسگالی (چاہے وہ فرضی ہی سہی) کی متحمل نہیں ہوتی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی طرز پر برکس کا توسیعی اجلاس 22 سے 24 اکتوبر تک روس کے شہر قازان میں منعقد ہوگا۔ امید ہے اس میں مودی جی خوشی خوشی شریک ہوں گے۔ ہندوتوا کے نظریہ کو جس طرح پاکستان اور مسلم دشمنی کے محور پر مودی جی نے گھمایا ہے وہ انہیں ہرگز ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ ایس سی او کے موقع پر پاکستان آئیں یا ان کے وزیر خارجہ اس موقع کو دونوں ممالک کو قریب لانے کی کوشش کے طور پر استعمال کریں۔

ایس سی او کے اجلاس کی دوسری فتنہ گری جو زیادہ تر زیر بحث رہی وہ بانی پی ٹی آئی کی مذکورہ ایام میں اسلام آباد میں احتجاج کی کال تھی۔ عمران خان کے مخالفین کے نزدیک وہ ایسے ضدی، انا پرست اور خود غرض شخص ہیں جو پاکستان اور اہل پاکستان کو انہیں اقتدار سے نکالنے کی سزا دے رہے ہیں۔ ہٹلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے آخری ایام کے دوران اس نے کہا تھا کہ وہ جرمنی کی مکمل تباہی چاہتے ہیں کیونکہ جرمن عوام نے انہیں مکمل مایوس کیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر بھی بانی پی ٹی آئی اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے اور فوجی دستوں کا سامنا کرنے کے لیے اکساتے رہے کیونکہ انہیں فوج پر دبائو ڈالنے اور اسے بدنام کرنے کے لیے چند لاشوں کی ضرورت ہے۔ ہر ہر موقع پر انہوں نے خود کو ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی کے لیے تباہی کی ایک صورت کے طور پر پیش کیا ہے۔

جیل میں ہونے کے باوجود انہوں نے بڑی مہارت سے عدلیہ کی ان کے لیے خیرسگالی اور گڈ ٹوسی یو کو استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے عدالتوں نے انہیں سیاسی منظرنامے سے گم ہونے سے بچا رکھا ہے۔ خیبر پختوان خوا اور وسطی پنجاب کے شہری اور نیم شہری علاقوں کی حمایت کو بھی وہ بڑی چالاکی سے اپنے مفادات کے گرد گھماتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو بھی وہ خطرناک حد تک استعمال کرنے کے ماہر ہیں لیکن ان کی یہ سب مہارتیں انہیں کسی کامیابی سے ہمکنار کرنے کے بجائے منزل سے دور لے کر جارہی ہیں۔ پندرہ اور سولہ اکتوبر کو بھی انہوں نے ’’خطرے ناک‘‘ ہونے کی کوشش میں جو گڑھا کھودا تھا حکومت نے اسے بڑی ہوشیاری سے ان کے میڈیکل ٹیسٹ تک لاکر مٹی سے پاٹ دیا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو شہباز حکومت نے ایک نادر سفارتی موقع کے طور پر اس وقت استعمال کیا جب کئی برس سے ملک کو چلنے نہیں دیا جارہا تھا۔ پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچادیا گیا تھا۔ اس اجلاس کو انہوں نے پاکستان کو عالمی سطح پر ثابت کرنے اور اس کے اسٹرٹیجک اثرر سوخ کو ابھارنے کے لیے اس خوبی سے استعمال کیا کہ پا کستان کو اقتصادی فوائد اور سفارتی سرمایہ دونوں حاصل ہوئے۔ چند برس پہلے ہی کی تو بات ہے جب عہد عمرانی میں ہم سے چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک بھی نہیں سنبھالے جارہے تھے۔ سفارتی تنہائی اور اقتصادی بدحالی کا زہر ہمارے رگ وپے میں سرایت کرچکا تھا اور کہاں اب کہ پاکستان ایس سی او کے پلیٹ فارم سے چین سمیت اپنے ہمسایہ ممالک روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت سنگین معاشی مسائل کا سامنا ہے، آئی ایم ایف کے قرضے جن کا حل نہیں ہمیں نہ صرف نئی معاشی شراکت داریوں کی طرف جانا ہوگا بلکہ ایس سی او کے رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرکے علاقائی مارکیٹوں تک رسائی، انفرا اسڑکچر کی سرمایہ کاری اور تجارتی ترقی پر زور دینا ہوگا۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پر بھر پور توجہ دینا ہو گی۔ یہ درست ہے کہ شنگھائی تعاون جیسی تنظیموں کے اجلاس سے مسائل کلی طور پر حل نہیں ہوتے لیکن کچھ راہیں ضرور کشادہ ہوتی ہیں۔