ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

201

تھے تو وہ آبا تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

کیا کسی کو یاد ہے کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ایسا بھی گزرا ہو جس نے بھارت کو، وہاں کے مسلمانوں پر ظلم کے خلاف اپنی آواز سے للکارا ہو، چلیے کوشش کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی نام یاد آہی جائے، پاکستان نے ظفر اللہ خان، محمد علی بوگرہ، شریف الدین پیرزاہ، یحییٰ خان، صاحب زادہ یعقوب علی خان، آغا شاہی، ذوالفقار علی بھٹو، عزیز احمد، فاروق لغاری، خواجہ آصف، گوہر ایوب خان، بلاول زرداری، شاہ محمود قریشی، خورشید قصوری، حنا ربانی کھر جیسی شخصیات کو یہ منصب دیا تھا، نام پڑھ لینے کے بعد اگر نام یاد آجائے کہ ان میں سے کس نے بھارت کو للکارا تھا، بھارت میں یہ وزارت جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی، سورن سنگھ، اٹل بہاری واجپائی، پرناب مکر جی، نرسیما رائو، سلمان خورشید، نٹور سنگھ سے ہوتی ہوئی اب شنکر کے پاس پہنچی ہے، بھارت کے ہر وزیر خاجہ نے ہمیں نقصان پہنچایا، دونوں ملکوں میں جب بھی بات چیت ہوئی، دہلی کی جانب سے ہمیں گرم ہوائیں ہی ملتی رہی ہیں، دونوں ملکوں کے مابین شملہ معاہدے سمیت بات چیت کے درجنوں دور ہوئے ہیں اور نتیجہ کیا رہا؟ نتیجہ پانچ اگست، بھارت میں آرٹیکل 370 اور 35 A وہاں سیاسی قیادت کے بعد عدلیہ نے بھی ایک پیج پر ہونے کا ثبوت دیا، اور ادھر ہم کیا تھے، جب بھی حکومت بدلی ساتھ ہی صفحہ بھی بدل گیا۔ بھارت نے خاموشی کے ساتھ پانچ اگست کو وہ سب کچھ حاصل کرلیا جس کی وہ منصوبہ بندی کیے بیٹھا تھا اور ہم نے کیا کیا؟ جمعہ جمعہ تین ہفتے احتجاج اور پھر بس، سب کچھ بھول گئے، یہ اس زمانے میں جب عمران خان ملک کے وزیر اعظم تھے اور باجوہ آرمی چیف تھے، دونوں خاموش رہے کہ دونوں ہی ایک پیج پر تھے، ابھی شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہ کانفرنس ہوئی، ہم نے کیا کیا؟ ملکی میڈیا پابندیوں کی کلے پر باندھ دیا، اور بھارتی میڈیا جو اپنے وفد کے ساتھ آیا اس کے کئی ارکان پاکستان کے سیاست دانوں سے ملاقات کرتے رہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی پاکستان میں سربراہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوئی کہ پاکستان کی اس خطے میں اہمیت باقاعدہ تسلیم کی گئی ہے اور ہم اس تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ تاریخی معاہدے کررہے ہیں دوسری جانب بھارت کی پوزیشن یہ ہے کہ اسے اب بنگلا دیش، قطر، سری لنکا، نیپال، مالدیپ، جیسے ملکوں میں کوئی اہمیت نہیں رہی، حتیٰ کہ ایران بھی اب بھارت سے بہت دور ہوگیا ہے، کینیڈا میں بھارت کو تقریباً دیس نکالا مل چکا ہے، بھارت کی مودی سرکار اپنے ملک میں پارلیمنٹ میں اپنا سیاسی حجم کم کیے بیٹھی ہے اور اسے مقبوضہ کشمیر میں بھی اسے شکست ہوئی ہے یہ بہترین وقت تھا کہ اسلام آباد میں اس کے وفد کے ممبرز یا وفد کے سربراہ سے میڈیا انٹرایکشن ہوتا تو ہمارا میڈیا اسے سفارتی تنہائی یاد دلاتا اور زچ کرکے رکھ دیتا، مگر پاکستانی میڈیا کو ملنے والی رسائی کہ حد یہ ہے کہ اس کے لیے پاک چائنا سینٹر تک پہنچنا ہی محال ہے اس کے برعکس بھارت سے آنے والے میڈیا کے سینئر ممبرز پاکستانی سیاست دانوں سے مل رہے ہیں جیسے کہ بھارتی صحافی برکھارت نواز شریف سے ملی ہیں، اگر پاکستان کے میڈیا کو بھی باقاعدہ بریفنگ دے کر خاص طور پر بھارت کے وفد کے ساتھ سوال جواب کا موقع دیا جاتا تو مقبوضہ کشمیر کی حد تک ہی سہی ہم اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوتے مگر کیا کیجیے کہ ہمارا دفتر خارجہ ان دنوں بیگانہ دفتر خارجہ بنا رہا یہ سب کے لیے رسائی اور سہولت کا ذریعہ ہے لیکن اس کے لیے پاکستانی میڈیا ہی مکمل اجنبی تھا۔

بھارت میں ان دنوں کیا چل رہا ہے، مودی سرکار کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا روز کا معمول بن گیا ہے۔ حال ہی میں صحت اور حفاظت کے قواعد یقینی بنانے کی آڑ میں مسلم مخالف پالیسی متعارف کرائی گئی، اس مسلم مخالف امتیازی پالیسی میں ریستورانوں پر یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام عوامی طور پر ظاہر کریں۔ نئے قوانین دراصل مسلمان کارکنوں اور اداروں پر تعصب اور نفرت کی آڑ میں سازش کے تحت حملہ ہیں۔ اس سے مسلم کاروباری مالکان کو ٹارگٹڈ حملوں کا اندیشہ ہے اور اگلے مرحلے میں اقتصادی بائیکاٹ بھی ہوسکتا ہے بجرنگ دل کے ایک رہنما کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، ویڈیو میں بجرنگ دل کا رہنما، حاضرین سے یہ عہد کرنے کا مطالبہ کررہا ہے کہ وہ کسی مسلمان دکاندار سے سامان نہیں خریدیں گے۔ نیا لاگو کردہ قانون بی جے پی کی جانب سے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہے، جو معاشرے میں خوف اور تقسیم پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ظالمانہ پالیسی کے باعث شدید ہراساں کیا جا رہا ہے، اور بعض تو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں ایک ریسٹورنٹ کو اپنے مسلمان عملے کو برطرف کرنا پڑا کیونکہ یہ امتیازی پالیسی ایک خطرناک سازش ہے جو مسلمانوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے اور نفرت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ملکی میڈیا کو یہ رسائی حاصل نہیں تھی کہ وہ بھارت سے آئے ہوئے سرکاری عہدیداروں سے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسے سلوک پر کوئی بات کر سکتے، ہم پا کستانی قوم گزشتہ ستر سال میں یہی بھاشن سنتے آئے ہیں کہ بھارت کشمیر کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے، لیکن اس کی جانب سے کبھی نہیں سنا گیا کہ ہاں ایسا کرتے ہیں۔ پانچ اگست کو تو اس نے سب کچھ ہی ملیا میٹ کردیا اور ہم خاموش رہے کیونکہ ہمارے پاس اس وقت ’’ٹیپو سلطان‘‘ وزیر اعظم تھے، مگر اصل ٹیپو سلطان نے تو کچھ کردکھایا تھا، مگر ہمارے ٹیپو سلطان نے کیا کیا؟ ایک حلقہ مسلسل یہ بات کہہ رہا ہے کہ پاکستان اور نہ ہی ہندوستان کو دشمنی سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے، کوئی بھی تنازع دونوں کے لیے تباہی لائے گا، کوئی بھی بھارت سے نہیں پوچھ رہا کہ تم نے پانچ اگست کو جو کیا، وہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کی نفی نہیں؟ سنگھائی سائڈ لائن میٹنگ ہوئی نہ ہم نے یہ پوچھا، اور کانفرنس میں شریک بھارتی وفد آنکھیں بن کرکے آیا اپنے کان لپیٹ کر واپس چلا گیا اور ہم خوش ہیں کہ راستے بند کرکے ہم نے عوام کو تنگی دے کر کانفرنس کے شرکاء کو تحفظ فراہم کردیا۔