کون بنے گا حماس کا سربراہ؟

160
Sabotage Ceasefire Efforts

غزہ: اسرائیلی فوج نے حماس اور حزب اللہ میں قیادت کا بحران برقرار رکھنے کی ٹھان رکھی ہے۔ جولائی میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا۔ گزشتہ ماہ بیروت میں حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کو شہید کیا گیا اور اب غزہ کی پٹی میں حماس کے سربراہ یحیٰی سنوار کو بھی شہید کردیا گیا ہے۔

اسرائیلی قیادت ایک سال سے کہتی آرہی ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں، اُن کے نتیجے میں 1300 سے زائد ہلاکتوں اور سیکڑوں اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے کے منصوبے کی پشت پر یحیٰی سنوار تھے۔ اب اسرائیلی فوج اور حکومت بہت خوش ہیں کہ انہوں نے انتقام لے لیا۔

یحیٰی سنوار حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے ایران اور حزب اللہ سے حماس کے تعلقات مستحکم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ حماس کی صفوں میں ایک انتہا پسند لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔

اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ حماس کا سربراہ کون بنے گا؟ اور یہ کہ اب اس تنظیم یا مزاحمتی تحریک کا مستقبل کیا ہوگا؟ لڑائی جاری ہے تو کیا جاری ہی رہے گی؟ اور یہ کہ حماس نے اسرائیل کے جن باشندوں کو یرغمال بنایا تھا اُن کا کیا ہوگا؟

حماس کے ممکنہ سربراہوں میں خالد مشعل، موسیٰ ابو مرزوق، محمود الظہر، محمد سنوار اور خلیل الحیہ شامل ہیں۔ یحیٰی سنوار کے چھوٹے بھائی محمد سنوار اس وقت 49 سال کے ہیں۔ وہ عزالدین القسام بریگیڈ میں غیر معمولی مقام رکھتے ہیں۔ وہ منظرِعام پر کم کم رہے ہیں اور میڈیا سے بات بھی کم ہی کی ہے۔ حماس کے عسکری سیٹ اپ میں ان کا مقام بہت بلند رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حماس کے بیشتر ملڑی آپریشنز محمد سنوار کے ذہن کی پیداوار رہے ہیں۔ وہ اسرائیلی پر حملوں کے لیے بنائے جانے والے سرنگوں کے نیٹ ورک کے نظم و نسق سے بھی وابستہ رہے ہیں۔

محمد سنوار کی نظریاتی اساس بھی وہی ہے جو ان کے بھائی کی رہی ہے۔ وہ حماس کی شرائط کے تسلیم کیے جانے تک اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں اور بات چیت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ وہ اس تحریک کے انتہائی سخت گیر اذہان میں سے ہیں۔ وہ ایران اور حزب اللہ سے گہرے تعلقات کے حامل رہے ہیں۔ اگر وہ حماس کے سربراہ بنائے گئے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایران اور حزب اللہ سے اس تحریک کے تعلقات پروان چڑھتے رہیں گے۔

خلیل الحیہ کا نام بھی حماس کے متوقع سربراہوں میں شامل ہے۔ وہ یحیٰی سنوار کے نائب رہے ہیں۔ وہ یحیٰی سنوار کے مقابلے میں لچک دار ہیں۔ انہوں نے یحیٰی سنوار کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی سے متعلق مذاکرات سے بھی منسلک رہے ہیں۔ اگر خلیل الحیہ حماس کے سربراہ بنائے گئے تو اس بات کا امکان ہے کہ تنظیم بات چیت کی طرف جائے اور اسرائیل سے کشیدگی کا گراف نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا جائے۔

خالد مشعل بیرونِ ملک زیادہ متحرک رہے ہیں۔ ان کا علاقائی نیٹ ورک بہت اچھا ہے۔ اگر انہیں حماس کا سربراہ بنایا گیا تو بات چیت دوبارہ شروع ہونے اور کشیدگی گھٹانے کی کوششیں کیے جانے کا قوی امکان ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ علاقائی طاقتوں کے ساتھ اسرائیل سے بات کریں اور امن کی راہ ہموار ہو۔

موسیٰ ابو مرزوق غیر معمولی حد تک سخت گیر ہیں۔ وہ اسرائیل سے براہِ راست مذاکرات کے بالکل مخالف ہیں اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر انہیں حماس کا سربراہ بنایا گیا تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تحریک مزید سخت گیر رویہ اپنائے اور نئے محاذ کھل جائیں۔