امریکا: سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل

443

امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا باپ ہے۔ وہاں جس طرح عوام کا استحصال ہو رہا ہے آپ کو اندازہ نہیں۔ یہ بات جاننے کے لیے امریکا میں رہنا ضروری ہے اور یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ سارے ادارے سرمایہ داروں کے حوالے کردیے تاکہ عوام کے حقوق غصب کیے جا سکیں۔ انسان کے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ یہی کہ والدین کا سہارا بننا ہے، والدین کے اخراجات، بیماری کی صورت میں ان کا علاج۔ بچوں کی باعزت طریقے سے پرورش اور تربیت ان کی ضروریات اسکول، ٹیوشن، غذا، صحت مند ماحول وغیرہ اور یہ سارے کام جب ایک آدمی کو کرنے پڑیں تو صرف حکومت ہی ہوتی ہے جو فرد کے حقوق کی حفاظت کر سکتی ہے پرائیویٹ مل مالک کہتا ہے یہ اس کی درد سری نہیں مجھے تو بس پروڈکشن چاہیے اس کی بلا سے مزدور کی ماں کا علاج ہورہا ہے کہ نہیں، اس کے باپ کی دوا آرہی ہے کہ نہیں، اس کے بچے کی اسکول فیس، کتابوں، اسٹیشنری، ٹیوشن اور دیگر اخراجات پورے ہو رہے ہیں کہ نہیں۔ صرف یہی نہیں جب سب ایک گھر میں رہتے ہیں تو شادی بیاہ، خوشی غمی، رشتہ داریاں نبھانا، آنا جانا یہ سارے کام ایک مزدور صرف اس وقت ہی کرسکتا ہے جب وہ سرکاری نوکری کرتا ہو۔

یہ فلسفہ کہ ائر پورٹ چلانا، ائر لائن چلانا، اسٹل ملز چلانا ریلوے چلانا حکومت کا کام نہیں خالصتاً سرمایہ دارانہ فلسفہ ہے۔ کیونکہ امریکا اور یورپ میں سرمایہ داروں نے پوری معیشت پر قبضہ کر کے اپنے عوام کو غلام بنا رکھا ہے۔ تھوڑا بہت انصاف، آسائش اور حقوق کے نام پر ان کو مکمل طور پر غلام بنا رکھا ہے۔ یہی کام ہمارے ملک میں شریفوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے کہ ہر ادارہ سرمایہ دار کے حوالے کر دیا جائے تاکہ عوام کو غلام بنایا جا سکے۔ سب جانتے ہیں کہ پرائیویٹ اداروں میں مزدور یونین گالی سے کم نہیں ہوتی حالانکہ آئین میں مزدور کو یونین سازی کا حق دیا گیا ہے۔ مگر یہ سرمایہ دار مزدور سے بیگار لے کر اپنی فیکٹری، کارخانے، ریلوے یہاں تک کہ ائرلائن اور پاور پلانٹ چلانا چاہتے ہیں اور مزدور کو ان کے حقوق سے محروم کر دیتے ہیں۔ غور کرنے اور گہرائی میں جا کر سوچنے سے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔

نواز شریف کا یہ فلسفہ پوری قوم کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔ آج بھی جو پارٹیاں پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں یہ بات زرا غور طلب ہے کہ وہ کیوں پی آئی اے کی موجودہ افرادی قوت کو رکھنا نہیں چاہتیں! اب پی آئی اے میں ملازمین ہی کتنے رہ گئے ہیں مگر چونکہ ان کی مراعات مع ٹکٹ، میڈیکل، چھٹیوں کی تعداد سب ان نئے سرمایہ دار کو بہت بھاری لگتے ہیں حالانکہ بعض نجی فضائی کمپنیاں اگرچہ کہ تنخواہیں کم دیتی ہیں مگر ٹکٹ پی آئی اے سے زیادہ دیتی ہیں مگر مراعات میں وہ پی آئی اے کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ نیا سرمایہ دار اصل میں مزدور سے بیگار لینا چاہتا ہے اسے ایک لاکھ کا مزدور بھی بھاری نہیں پڑے گا اگر مراعات ٹکٹ میڈیکل نہ دینا پڑے دوسرے یہ کہ فی الحال مزدور کو ادارے میں جو نوکری کا تحفظ یعنی Job Security حاصل ہے نیا سرمایہ دار مزدور سے اس کا یہ حق چھین لینا چاہتا ہے۔روز کی بنیاد پر بھرتی، روز کی بنیاد پر برخواستی والا ماحول یہ سرمایہ دار پیدا کرنا چاہتا ہے سارے مستقل عملے کو نکال کر یومیہ دہاڑی پر مزدور رکھنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے اور مغرب کے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں کوئی کسی کی ذمے داری نہیں، سب تن تنہا اپنی ذات تک ہی محدود ہیں یہی وجہ ہے کہ مغرب کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے جو انسان کی فطرت کے قطعی خلاف ہے۔ اس موضوع پر بھی کافی پہلے بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ دراصل سرمایہ دار کو مغربی معاشرہ بہت راس آتا ہے یہ نہ کسی کی ذمے داری لیتا ہے نہ اپنے زیر کفالت بچوں، بوڑھے والدین، چھوٹے بہن بھائی اگر والد کی انکم زیادہ نہ ہو اور اگر چھوٹے بہن بھائی یتیم ہوں تو بڑے بھائی کو باپ بن کر انہیں پالنا پڑتا ہے اس کے لیے مزدور کو نوکری کا تحفظ یعنی Job Security اور مختلف قسم کی مراعات درکار ہوتی ہیں جو پرائیویٹ سرمایہ دار قطعی دینے کو تیار نہیں جبکہ یہ کام ایک سرکاری ادارے کا ملازم ہونے کی صورت میں بآسانی ہو سکتا ہے اس لیے ہمارے جیسے ملک و معاشرے میں تمام اداروں کا سرکار کی سرپرستی میں چلانا اشد ضروری ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت بلکہ دوام بخشنے کے لیے ایسے پروفیشنل طبقے کی پیدائش بھی ضروری سمجھی گئی جو سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے اور پھیلانے بلکہ عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے پروفیشنل تعلیم کا بھی بندوبست کیا گیا۔ اس پروفیشنل تعلیم کی سب سے نمایاں ڈگریاں MBA/CA/ICMA وغیرہ ہیں ان کے نصاب ایسے ترتیب بلکہ لکھے گئے ہیں جو صرف ایک سرمایہ دار کے سرمائے کو بڑھانے اور اس کی تجوری بھرنے سے زیادہ کچھ نہیں سکھاتے۔ ان کے نصاب میں معاشرتی بہبود، آجر و اجیر کے حقوق، انسانی کی بنیاد پر تعلق داری۔ مزدور کی معاشی ابتری کو معاشی بہتری میں تبدیل کرنے کا کوئی سبق نہیں پڑھایا جاتا۔ ایک سرمایہ دار کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آج اس کی فیکٹری کے مزدور کے گھر چولہا جلا کہ نہیں۔ اس کے بوڑھے والدین کی دوا اور علاج کے لیے اس کے پاس خاطر خواہ رقم ہے کہ نہیں، اس کے بچوں کی اسکول فیس کے پیسے ہیں کہ نہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں ایک نوجوان کے کاندھوں پر اپنی ذات، بوڑھے والدین اور بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی ذمے داری ہوتی ہے وہاں سرمایہ دارانہ معیشت اس کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔

انہی ذمے داریوں Liabilities سے جان چھڑانے کے لیے تمام اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے تاکہ تمام ہی بڑے ادارے بیگار کیمپ کا نقشہ پیش کرتے رہیں اور سرمایہ دار مزدور کا استحصال کرتا رہے۔ اسی معاشی اور معاشرتی ربط اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے بھٹو صاحب کے دور میں NIRC کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کی نگرانی میں مزدوروں کو اپنے اپنے اداروں میں CBA کے چناؤ کا حق دیا گیا تھا مگر اب رفتہ رفتہ یہ ماحول حالات کے جبر میں تحلیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ جسے بحال کرنا بے حد ضروری ہے اور اس کے لیے جماعت اسلامی کا حکومت میں آنے از حد ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی جیے بھٹو کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر بھٹو صاحب کے قائم کردہ اداروں کی بقاء و تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتی۔