ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور حکومت پاکستان کا کردار!

162

تیئس سال کے بعد بھی، 9/11 کے متاثرین امریکی عقوبت خانوں سے رہائی پانے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ جن میں سے ایک پاکستان اور امت مسلمہ کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ہے۔ 2001ء میں جڑواں ٹاوروں پر حملے کے بعد امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر چڑھائی کردی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 9/11 ایک المیہ تھا۔ جس کے نتیجے میں تین ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اس سانحہ کے چند دنوں بعد ہی امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ بالآخر 20 سال کی طویل جنگ کے بعد امریکا نے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پھر اس نے عجلت میں افغانستان چھوڑا۔ طالبان سے معاہدے کے نتیجے میں قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا گیا۔

ڈاکٹر عافیہ بھی 9/11 کی متاثرہ ہیں۔ ان کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جو لوگ یہ جنگ لڑ رہے تھے اور قیدی بنا لیے گئے تھے انہیں تو رہا کردیا گیا مگر عافیہ ابھی تک قید ناحق میں ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ ان کی رہائی کے اب جو کوششیں ہورہی ہیں اس کی کامیابی کے لیے حکومت پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔ چند روزقبل کلائیو اسمتھ ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی کے نئے شواہد حاصل کرنے افغانستان گئے تھے۔ ڈاکٹرعافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ نے نئے مواد کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے ’’بلیک سائٹ‘‘ کے بارے میں زبردست نئے شواہد حاصل کیے ہیں جہاں عافیہ صدیقی کو بگرام آئسولیشن سیلز میں رکھا گیا تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی عدالتوں سے بھی رجوع کرلیا گیا ہے۔ کلائیو اسمتھ نے 56,600 الفاظ پر مشتمل معافی کی درخواست (clemency) دائر کی ہے جس کا مقصد عافیہ صدیقی کے کیس سے متعلق پیچیدگیوں اور ناانصافیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ امریکی اہلکاروں پر حملے کے جھوٹے الزام میں سزا پانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی قانونی ٹیم کو نئے اور خفیہ شواہد تک رسائی کی اجازت دے دی گئی ہے جو سزا کی معافی کی درخواست کے لیے ایک اچھی علامت سمجھی جارہی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ان کے سپورٹرز کی بہت بڑی تعداد پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی سرگرم عمل ہے۔ امریکا سے تعلق رکھنے والے علماء، انسانی حقوق کے علمبردار اور ڈاکٹر عافیہ کے سپورٹرز نے ایف ایم سی کارسویل جیل کے سامنے ڈاکٹر عافیہ پر تشدد اور مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ڈاکٹر عافیہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرے، کیونکہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ انہوں نے غزہ کے بہادر عوام کی جدوجہد کو بھی سراہا جو قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نسل کشی کا جرأت مندی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جنسی اور جسمانی تشدد کی کسی تیسرے غیرجانبدار فریق کے ذریعے تحقیقات اور مزید بدسلوکی کو روکنے کے لیے بامقصد اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کررہے تھے۔

لندن میں امریکی سفارت خانے کے سامنے ڈاکٹر عافیہ کی 86 سال کی ظالمانہ سزا کے خلاف فرینڈز آف عافیہ صدیقی، کیج (Cage) اورجسٹس فار عافیہ کولیشن نے پرامن مظاہرہ کیا۔ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ یہاں پر بھی مظاہرین نے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ڈاکٹر صدیقی کی جلد رہائی کے لیے بھرپور اور جرأت مندانہ کردار ادا کرے۔ یہاںبھی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کے نسل کشی اور دیگر جنگی جرائم کی شدید مذمت کی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور ان پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف مذکورہ بالا دونوں مقام پر چند دنوں بعد ایک مرتبہ پھر پرامن احتجاج کیا جائے گا۔

اسلام ہائی کورٹ میں گزشتہ سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان پیش ہوئے تھے۔ انہوں نے عدالت کو یقینی دہانی کرائی ہے کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے گی۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے تین مختلف آپشن پر کام ہورہا ہے۔ ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ حکومت پاکستان رحم کی درخواست کی حمایت کرے اور اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت پاکستان معافی کی درخواست کی حمایت میں خط لکھے گی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے معاملے پرجو تین ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے اس پر کام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے نومبر سے جنوری تک کا عرصہ انتہائی اہم ہے۔ پوری قوم کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان کا خط بھی درکار ہے اور خط کے بعد وزیراعظم کو کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔ اس وقت عوام، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے درمیان عدم اعتماد کی جو خلیج نظر آرہی ہے اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ایک عام پاکستانی کو تحفظ کا احساس دلایا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی اس اعتماد کو بحال کرنے کا باعث بنے گی۔ ان شاء اللہ