اسلام اخلاق کا ایک ہمہ گیر تصور دیتا ہے اور اس کے لیے ایمان و عقیدے کی نہایت مستحکم اور پائیدار بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ سورہ نحل کی آیت (بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور اہل قرابت سے صلہ رحمی کا اور روکتا ہے بے حیائی، برائی اور سرکشی سے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو‘‘۔ (آیت: 9) کو کئی مفسرین اور اخلاقی فلسفیوں نے اسلام کے فلسفہ اخلاق کا خلاصہ قرار دیا ہے اور غالباً اسی لیے یہ آیت جمعہ و عیدین کے خطبوں میں سلف صالحین کے دور ہی سے پڑھی جاتی رہی ہے۔ اس میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا حکم عدل کا ہے جو اسلامی اخلاق کا اہم ترین عنوان ہے۔ عدل کا مطلب ہے ہر ایک کو وہ پورا حق دینا جس کا وہ مستحق ہے۔ دوسرا حکم احسان کا ہے، یعنی دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے کی کوشش کرنا، دوسرو ں کے جذبات کا لحاظ رکھنا، خیر خواہی، حسن سلوک، مروت اور فیاضی کا معاملہ کرنا اور اس کے لیے ایثار وقربانی سے کام لینا۔ امام راغب اصفہانیؒ نے احسان کی تعریف کرتے ہوئے یہی بات لکھی ہے: ’’احسان یہ ہے کہ جو کچھ اس پر واجب ہے اس سے زیادہ دے اور جو اس کا حق ہے اس سے کم لے۔ احسان عدل سے زیادہ ہے‘‘۔ تیسرا حکم صلہ رحمی کا ہے۔ یعنی ضرورت مند قریبی رشتے داروں کا اپنے مال اور اپنے دیگر وسائل میں حق تسلیم کرنا اور ان کی ضرورت کے موقع پر ان کے کام آنا۔ اس آیت کریمہ میں تین باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ فحش یعنی بے حیائی کی باتوں سے، منکرات یعنی ہر اس برائی سے جسے لوگ برا جانتے اور سمجھتے ہیں اور بغی سے، جو مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں ’’اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، سورہ نحل، حاشیہ 89)
اس آیت میں اسلامی اخلاق کا جو جامع تعارف کرایا گیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی اخلاق کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ حقوق کی ادائیگی اس کا نمایاں ترین اظہار ہے۔ اسی کا نام عدل ہے۔ حقوق کی تفصیل قرآن وحدیث میں آئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا، والدین کا، عزیز و اقارب کا، پڑوسیوں کا، دوسرے مسلمانوں کا، دیگر تمام انسانوں کا، اور پھر چرند پرند اور دیگر مخلوقات کا، سب کا حق انسان پر ہے۔ خود اس کے نفس کا حق ہے۔ بچوں اور آنے والی نسلوں کے بھی حقوق ہیں۔ ان سارے حقوق کو بالکل درست ادا کرنا عدل ہے جب کہ حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں فیاضی کا رویہ اختیار کرنا احسان ہے۔
متعدد نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی احکام کا وہ حصہ جس کا تعلق انسان اور انسان کے مابین معاملات سے ہے، وہ شارع کے نزدیک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ اللہ کے رسولؐ کے سامنے ایک ایسی عورت کا ذکر ہوا جو نفل نماز و روزہ اور صدقات کا خوب اہتمام کرتی تھی، لیکن پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی تھی، تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جہنم میں ہے‘‘۔ اس کے مقابلے میں ایک اور عورت جو نفل نماز و روزہ اور صدقے تو زیادہ نہیں کرتی تھی، لیکن پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی تھی تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جنت میں ہے‘‘۔ (مسند احمد) رسولؐ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔ (بخاری) ایک اور جگہ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو‘‘۔ (مسلم) اذیت رسانی کے سلسلے میں اسلامی اخلاق اس قدر حساس ہیں کہ اس معاملے میں کسی بے احتیاطی یا غیر ذمے دارانہ روش کو بھی روا نہیں رکھا گیا۔ رسولؐ کا ایک بہت ہی چونکا دینے والا فرمان کتب احادیث میں نقل ہوا ہے کہ ’’جو کسی کا علاج کرے حالانکہ اسے طبیب کے طور پر نہ جانا جاتا ہو‘‘ یعنی وہ باقاعدہ معالج نہ ہو تو موت یا مرض کے بڑھنے کی صورت میں وہ اس کا ذمے دار ہوگا۔ (نسائی)
اس طرح ایذا رسانی سے گریز اور اس کے مقابلے میں فیض رسانی، یہ اسلامی اخلاق کا خلاصہ ہے۔ ایفائے عہد پر تو قرآن و حدیث میں اتنا زور ہے کہ یہ اسلامی اخلاق کا نہایت اہم عنوان قرار پاتا ہے۔ ’’عہد کی پابندی کرو، بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی‘‘۔ (الاسراء: 34) آپؐ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ ’’جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں‘‘۔