فرقہ واریت کا سدباب: ممکنہ حل

204

ہمارے خیال میں اس کی ذمے داری مکمل طور پر دینی مدارس‘ ائمہ و مشائخ اور علما پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہمیںتجزیہ کر کے دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی دینی مدارس کے نصاب میں شیخ الحدیث دورہ حدیث کے دوران ٹینک چلانے‘ ہیلی کاپٹر اڑانے‘ ہوائی جہاز چلانے اور کلاشنکوف کی ساخت‘ فوائد اور ترکیب استعمال کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں یا وہ اپنے طلبہ کو تفسیر حدیث‘ فقہ اور عقیدہ و کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا تشدد کا رویہ صرف دینی مدارس کے طلبہ اختیار کرتے ہیں یا قومی محرومیوں نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے ہر کیمپس پر ایسے طلبہ کے گروہ پیدا کر دیے ہیں جو اکثر مسلح رہتے ہیں اور آپس میں قتل و غارت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حوالے سے طالبان کی مثال پیش کی جاتی ہے کہ وہ محض فقہ و حدیث کے طالب علم نہیں بلکہ عسکری تربیت یافتہ افراد ہیں۔ لیکن یہ بات کہنے والے اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ 1500 سال کی اسلامی روایت علم یہ بتاتی ہے کہ آج تک کسی شیخ الحدیث نے اپنے طلبہ کو ٹینک اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت نہیں دی۔ پھر طالبان یہ سب کچھ سیکھ کر کہاں سے آگئے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جس ہیئت مقتدرہ نے انھیں یہ تربیت دی وہی آج دوسروں پر الزام دھرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ اس جملۂ معترضہ سے قطع نظر‘ جو حقیقت واقعہ (reality ground) پائی جاتی ہے ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

1۔اس پیچیدہ اور اْلجھے ہوئے مسئلے کے حل کے لیے پہلا اقدام خود نوعیت مسئلہ کا تعین و تجزیہ ہے اور یہ کام باہر سے آنے والا کوئی امریکی یا برطانوی مستشرق نہیں کرے گا‘ اسے ان افراد کو کرنا ہوگا جو خود کو مختلف ممالک کا ’’نمایندہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نمایندہ مسالک خواہ وہ شیعہ ہوں‘ دیوبندی ہوں‘ بریلوی ہوں یا اہل حدیث ہوں‘ انھیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہوگا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں اور اس کے محرکات کیا ہیں؟
2۔فقہی مسالک کے نمایندہ علما کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے‘ امن عامہ کے قیام‘ نفرتوں کے خاتمے اور اخوت و حق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہوگی۔ وہ دوعملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی قومی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرار داد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبردآزما بھی ہو جائے۔

3۔تشدد‘ قتل و غارت اور اختلافات کی پیدا کردہ منافرت کو دْور کرنے کے لیے علما اور مسالک کے رہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ بات باور نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو‘ جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن‘ بھوت یا فرشتے تو کرنے سے رہے۔ کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔ گویا مسالک کے سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام‘ انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے مسلک کے پیروکار افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمے داری قبول کرنی ہوگی۔

4۔ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مسلکی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرزعمل کا شکار ہوگئے ہیں‘ انھیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرأت مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور ملکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہوگا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے‘ اس لیے متعلقہ مسلکی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہوگا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔

5۔جماعت اسلامی جو اس خطے میں واحد غیر مسلکی دینی‘ اصلاحی‘ دعوتی اور سیاسی جماعت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے بھی اس ملّی اہمیت کے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے ارکان‘ امرا‘ ارکان شوریٰ غرض قیادت میں ہر سطح اور درجے پر اہل حدیث‘ دیوبندی اور بریلوی فکر کے افراد و علما شامل ہیں۔ اس میں فقہ جعفریہ سے وابستہ حضرات بھی شامل رہے ہیں۔ یہ وہ واحد دینی جماعت ہے جو دیگر جماعتوں کے سربراہان و مخلصین کو بلا کسی تردد و تکلف ملّی یک جہتی کے لیے دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام محض کانفرنسوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس غرض سے ایک مستقل رابطہ گروپ تشکیل دینا ہوگا‘ جس میں بار بار ملاقاتوں کے نتیجے میں اعتماد کی بحالی اور دلوں میں قربت پیدا ہو سکے۔ اس تعمیری اور طویل عمل میں ایک دوسرے سے واقفیت‘ ذاتی تعلّق اور تعمیر اعتماد (building confindence) بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

6۔مختلف مسالک کے جید علماے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شرانگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں‘ ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کو جرأت کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ لازمی طور پر ان معاملات میں حکومت کو خلوص نیت اور مکمل عزم کے ساتھ‘ اس عمل میں برابر کا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہوگا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہوگا۔ ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رْخ پر چلنا ہوگا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اگر اپنے مفادات کے پیش نظر ابلاغ عامہ کے اجارہ دار‘ اقتدار میں شریک دو جماعتوں میں جس کے بارے میں چاہیں اور جب چاہیں تحقیقات پر مبنی جائزے چھاپ سکتے ہیں کہ کس کی کتنی املاک کہاں پائی جاتی ہیں تو کیا دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔

7۔قومی ابلاغ عامہ کی ذمے داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علما اس دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو/ ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمایندہ علما کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہِ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آرا کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔ یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی‘ بے بنیاد واہمہ ہے۔ ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہوگا۔ اس لیے براہِ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخر اس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟ اگر یہ علما اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و دہشت گردی کا کون ذمے دار ہے؟ اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟ اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔ پس پردہ جواںمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔ عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟