عدلیہ اور مقننہ، ایک تاریخی کھنچاتانی

499

4 اکتوبر 2024 کے مضمون میں ہم نے آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 184 کے مطابق عدالت عظمیٰ کے اصل اور سو موٹو اختیارات پر گفتگو کی تھی۔ آج ہم آئین کے تناظر میں عدالت عظمیٰ کے بقیہ اختیارات پر نظر ڈال کر پاکستانی مقننہ پر عدلیہ کے اثرات کا جائزہ لیں گے تاکہ تاریخ کی روشنی میں مقننہ اور عدلیہ کی موجودہ کشمکش اور کھنچاتانی کے اسباب کا پتا چلے۔

آرٹیکل 185 کی کلازز (1) اور (2) کی سب کلاز (اے) تا کلاز (ایف) کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ کے فیصلوں، ڈگریوں اور سزاؤں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کی جا سکتی۔ اگر کسی کیس میں متعلقہ ہائی کورٹ یہ تصدیق کر دے کہ یہاں عدالت عظمیٰ سے آئینی تشریح درکار ہے تو ایسا کیس بھی اپیل کے ضمن میں لایا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 186 میں مشاورتی اختیار کے تحت عدالت عظمیٰ ایسے عوامی نوعیت کے معاملے میں قانونی سوال پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہے جو صدرِ پاکستان کی طرف سے اسے بھیجا گیا ہو۔ آرٹیکل 186 (اے) کے تحت عدالت عظمیٰ عدل کے مفاد میں کسی ایک ہائی کورٹ کے مقدمات کو کسی دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 187 کے تحت عدالت عظمیٰ اپنے زیر ِ سماعت مقدمات کے سلسلے میں پورے پاکستان سے کسی بھی شخص یا دستاویز کو طلب کرسکتی ہے۔ آرٹیکل 188 کے تحت عدالت عظمیٰ اپنے کیے گئے فیصلوں پر نظر ِ ثانی کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 189 کے تحت عدالت عظمیٰ کے ایسے تمام فیصلے جن میں کسی قانونی نکتے کی تشریح کی گئی ہو یا اصولِ قانون واضح کیا گیا ہو بطور نظائر تمام عدالتوں پر واجب العمل ہیں۔ آرٹیکل 190 کے تحت پاکستان کے تمام انتظامی اور عدالتی ادارے عدالت عظمیٰ کی معاونت کرنے کے پابند ہیں۔ آرٹیکل 191 کے تحت عدالت عظمیٰ آئین اور قانون کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اپنے لیے رولز بنا سکتی ہے۔ یہ وسیع تر اختیارات عدالت عظمیٰ کو اس لیے دیے گئے ہیں کہ وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرے اور مختلف اوقات میں پیدا ہونے والے آئینی اور جمہوری بحرانوں کو ملک کے وسیع تر مفادات میں حل کرے۔

ملک ِ خداداد پاکستان جو جمہوری جدو جہد سے معرضِ وجود میں آیا یہاں جمہوریت کی کشتی پہلی بار تب ڈگمگائی جب گورنر جنرل (اس وقت کے صدر) مَلک غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو پہلی اسمبلی کو توڑ دیا جو ابھی دستور سازی کے مراحل ہی میں تھی۔ مَلک غلام محمد گورنمنٹ آف انڈیا میں ایک بیوروکیٹ تھے جو وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان (بیرسٹر ایٹ لا جو 1923 سے مسلم لیگ میں شامل ہوئے 1936 سے مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے اور قائد ِ اعظم کے دستِ راست بنے رہے) کی کابینہ میں وزیر ِ خزانہ بنے۔ بعد ازاں یہ بلڈپریشر اور لقوے کے مریض ہو گئے اور لیاقت علی خان ان کی کارکردگی سے نامطمئن ہوئے۔ جب وزیر ِ اعظم نے وزیر ِ خزانہ مَلک غلام محمد کی برطرفی کے پروانے پر دستخط کیے تو اس کے اگلے ہی دن 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت باغ میں ان کا قتل ہو گیا۔ یوں مْلک میں ہنگامی حالات پیدا ہو گئے لہٰذا کابینہ کا فوری اجلاس بلایا گیا جس میں فیصلہ ہوا کہ خواجہ ناظم الدین جو ملک کے دوسرے گورنر جنرل تھے کو وزیر ِ اعظم اور ان کی جگہ مَلک غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا جائے۔ قائد ِ اعظم دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر (موجودہ اسپیکر) بھی تھے ان کی جگہ مولوی تمیز الدین خان اْس عہدے پر منتخب ہوئے تھے۔

دریں اثنا گورنر جنرل کے ایک حکم نامے کے ذریعے 17 اپریل 1953 کو وزیر ِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو فارغ کر کے اسمبلی سے کہا گیا کہ وہ اپنا نیا وزیر ِ اعظم منتخب کرے چنانچہ محمد علی بوگرہ صاحب وزیر ِ اعظم منتخب ہوئے۔ محمد

علی بوگرہ ایک فارمولا پیش کرتے ہیں جس کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان کے ایک ایشو کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تجویز دی گئی کہ پاکستان کی اسمبلی کا ایک ایوانِ زیریں ہوگا جس میں مشرقی پاکستان کو 165 اور مغربی پاکستان کو 135 نشستیں دی جائیں گی۔ جبکہ ایوانِ بالا میں پانچوں صوبوں کو دس 10 نشستیں دی جائیں گی اس طرح پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی نشستوں کی کل تعداد 175 اور 175 یعنی برابر ہو جائے گی۔ اس مرحلے پر پھر گورنر جنرل اور عوامی وزیر ِ اعظم کے مابین اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف قادیانی ایشو کھڑا کیا جاتا ہے اور پنجاب میں مصنوعی قحط کا بحران اٹھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف مْلک جو ابھی تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت چل رہا تھا جس کے سیکشن 223 اے میں گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل تھا اس سیکشن کی قرادادِ حذف اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے جو کثرتِ رائے سے منظور ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت پر قحط اور کرپشن کا الزام لگا کر پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن وزیر ِ اعظم محمد علی بوگرہ کو ان کے عہدے پر قائم رکھ کر ایک نئی اسمبلی اور کابینہ تشکیل دی جاتی ہے۔ یہ اسمبلی مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ایک صوبہ کر دیتی ہے جبکہ مشرقی پاکستان پہلے ہی سے ایک صوبہ تھا دونوں کو ملا کر ون یونٹ پاکستان بنا دیا گیا۔

مْلک کا پہلا سیاسی بحران ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل کی وجہ سے پیدا ہوا اسے حل کروانے کا ایک ہی راستہ تھا، فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ عدالت عظمیٰ)۔ چنانچہ اْس وقت کی تحلیل شدہ عوامی دستور ساز اسمبلی کے صدر (اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان نے چیف کورٹ آف سندھ (موجودہ سندھ ہائی کورٹ) کو درخواست کی کہ موجودہ اسمبلی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جسے خلافِ قانون قرار دیا جائے اور پرانی اسمبلی کو بحال کر کے انہیں بحیثیت صدر دستور ساز اسمبلی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ جبکہ سرکاری وکیل نے کہا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں سیکشن 223 اے کو حذف کرنے کے لیے گورنر جنرل کے دستخط نہیں لیے گئے اِس لیے اْس کا عمل قانونی حیثیت کا حامل ہے لہٰذا اس کیس کو سماعت کے لیے منظور نہ کیا جائے۔ مدعی نے عدالت کو درخواست کی کہ اگر کوئی قانون اسمبلی میں پاس ہو جائے اور گورنر جنرل اس پر سات دن کے اندر اندر دستخط نہ کرے تب بھی وہ بل قانونی حیثیت اختیار کر لیتا ہے لہٰذا اس قانون پر گورنرجنرل کے دستخط کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ چیف کورٹ آف سندھ نے مدعی کی دلیل کو مانتے ہوئے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دیا اور حکم دیا کہ عوامی اسمبلی کو فی الفور بحال کر دیا جائے۔ اس فیصلے کے خلاف فیڈریشن آف پاکستان فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ عدالت عظمیٰ) میں اپیل کرتی ہے جسے نہ صرف سماعت کے لیے منظور کیا جاتا ہے بلکہ جسٹس محمد منیر کی قیادت میں پانچ رکنی بنچ نے سماعت کے بعد چار ارکان کی اکثریت سے چیف کورٹ آف سندھ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے سے مَلک غلام محمد کے غیر آئینی اقدام کی توثیق ہو گئی۔ اور یوں پہلی دستور ساز اسمبلی کو ایک بیوروکریٹ کی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے والی عدالت ِ عظمیٰ نے عوامی نمائندوں کی امنگوں کا خون اپنے سر لے لیا۔ جب کہ جسٹس کارنیلیس نے اپنے اختلافی فیصلے میں چیف کورٹ آف سندھ کے فیصلے کو صحیح گردانا جس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی، (حوالہ فیصلہ نمبر فیڈرل کورٹ 240 آف 1955)۔ یاد رہے کہ ابھی تک فوج نے ملک کے سیاسی معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کی تھی اور نہ ہی عدلیہ پر فوج کا کوئی دباؤ تھا جبکہ افسر شاہی بھی اْس وقت تک اس قدر مضبوط نہیں تھی جو عدلیہ پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکتی۔ (جاری ہے)