میرٹ کا قتل عام

265

مہاجر قومی موومنٹ کا دور نامسعود تھا یہ 1990ء کی بات ہے حکومت الطاف حسین کی مٹھی میں تھی تو ریاست کا قانون اس لسانی ٹولے کر زیر نگیں تھا۔ 90 سندھ میں سرچشمہ ٔ اقتدار بنا ہوا تھا۔ خوف و خطر کی حکمرانی تھی، اشارہ ابرو پر قتل معمول تھا، معاشرے پر خزاں تھی تو اس ٹولے پر بہار کا سماں تھا، سرکار ان کی لونڈی تھی، سرکاری نوکری کے لیے مقامی زونل انچارج کی سفارش ہی میرٹ تھی۔ اور فیورٹ ہی سرکاری ملازمتوں کے دسترخوان کے حقدار تھے۔ مجال ہے کسی کو جبر کے اس دور میں ان کے علاوہ کسی کو نوکری سندھ میں باالخصوص اُن وزارتوں کے جن پر وہ بزور حقدار بنے تھے ملی ہو۔ باصلاحیت، اعلیٰ تعلیم یافتہ سرٹیفکیٹ ڈگریاں ہاتھ میں لیے مہاجر قومی موومنٹ کے زونل آفس کے چکر کاٹتے اور جوتیاں چٹخاتے اور جئے مہاجر کا نہ چاہتے نعرہ لگاتے پرچم اٹھاتے مگر نوکری کا حقدار وہی قرار پاتا جسے پیا چاہے اور کچھ ایسے بھی حلف بردار خوش نصیب تھے جن کو گھر بیٹھے آڈر ملے اور انہوں نے دفتر کی شکل بھی نہ دیکھی اور تنخواہ پابندی سے وصول کرتے رہے۔

کفر ٹوٹا ’’سی پیک‘‘ منصوبے سے ایم کیو ایم کا بستر اقتدار سمٹا اور پی پی پی کا پھریرا سندھ حکومت میں 2008ء کو لہرایا تو نوکریوں کا فارمولا مبینہ طور پر انہوں نے بھی اپنی اقتداری حلیف ایم کیو ایم والا اپنایا۔ نوکریوں کے لیے یہ فارمولا بنا کہ پرائی کھیتی کو پانی نہیں دینا ہے، سو پی پی پی کی قیادت کا کوٹا طے ہوا، صوبہ میں تو شہر اور دیہات کے کوٹے کی تقسیم تھی ہی پارٹی کوٹا بھی تقسیم در تقسیم ہوا۔ جعلی ڈومیسائل بننے لگے اور شہری کوٹے پر جیالوں کے ہاتھ صاف کرنے کی اطلاعات آنے لگیں۔ ایم کیو ایم والے فارمولا ملازمت نے زود اثری یہ دکھائی کہ کراچی جیالوں کی ملازمتوں سے بھر گیا، نئے عہدے نکالے گئے اور یوں مبینہ طور پر 20 سالہ اقتدار کے منصوبے میں 50 سال تک کی ملازمتوں کی خانہ پری کردی گئی۔ ماسوائے تعلیم کے شعبے پر جو ورلڈ بینک کی شرائط پر مجبور رہا۔ اس شعبے میں میرٹ کو کچھ ملحوظ رکھا گیا اور باقی ملازمتوں میں نمک جتنے غیر مضر ذائقے کی خاطر بھرتی کیے گئے۔ اور سرکاری نوکریاں ایسی بھی نکالی گئیں کہ گھر بیٹھے تنخواہ کی صورت وظیفہ لو، اصلی یا جعلی ڈگری کا بندوبست کرو، علاقے کے پارٹی امیدوار کو الیکشن جتوائو اور سرکاری نوکری پائو۔ یوں اب صورت حال ان بے چاروں کے لیے جنہوں نے تعلیم پر ساری توجہ مبذول اور رکھی والدین کے خون پسینہ کی کمائی لگائی اور جئے مہاجر، جئے بھٹو کے نعروں سے دور رہے نوکریوں سے بھی دور کردیے گئے اور اُن کی خون پسینے کی کمائی اور محنت و صلاحیت اکارت گئی وہ بے چارے کہاں جائیں جنہوں نے سیاست کے مکتب میں داخلہ ہی نہیں لیا۔ اب میرٹ سیاست ہے اور اس سے ہی وابستگی امید بہار رکھ والی بنادی گئی۔

میرٹ کا قتل عام ان دو ادوار نے ایسا کیا کہ وہ کچرے کے اوپر بٹھادیا گیا جن کا مطمح نظر مال کمانا، عیاشی کرنا، سیم و زر سمیٹنا ہے، اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ سادہ دل بندے کدھر جائیں، ان کی جمع پونجی تعلیم پر لگ گئی اب وہ کاروبار بھی نہیں کرسکتے اور ملازمت بھی نہیں ملتی۔ سو کچھ پیٹ پوجا کرنے کے لیے سائبر کرائم پر تعلیم کا تجربہ آزمانے کی غلط راہ پر چل نکلے، کچھ رہزن بن کر پرانی روش سیاست کا اجرا کر بیٹھے۔ بُرا ہو اس سیاست کا جہاں میرٹ کا قتل عام ہو، عدلیہ اور ادارے منہ دیکھتے ہی نہ رہیں بلکہ اس سے فیض سمیٹتے نظر آئیں۔ حقدار بے چاروں کے پاس آس، سسکیاں اور التجائیں ہی بچیں اور کچھ بد دعائوں سے ربّ کے حضور گزارش کریں کہ یا اللہ ان ظالموں کو تباہ و برباد کردے جو ہم پر ہماری اکثریت کے اعمالوں سے مسلط ہوگئے ہیں۔ ان مظلوموں کی آہ و فغاں بڑھ رہی ہیں جن کا ربّ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ میرٹ کا خاتمہ ریاست کے خاتمے کی علامت ہوا کرتا ہے سوچ لیں۔