حکیم سعید شہید کی باتیں۔۔۔ سینیٹر حسیب خان کی زبانی

128

حکیم محمد سعید جیسی شخصیات برسوں میں کہیں پیدا ہوئی ہیں۔ جن معاشروں میں ایسی شخصیات کی قدر کی جاتی ہے وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں پُرسکون رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس نایاب ہیرے کی وہ قدر نہیں ہوسکی جس کا وہ مستحق تھا۔ گزشتہ دنوں حکیم محمد سعید شہید کے یوم شہادت کی مناسبت سے ہمدرد نونہال اسمبلی اور ہمدرد شوریٰ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں نونہالوں اور اراکین ہمدرد شوریٰ نے حکیم صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا۔ شوریٰ کے دو عشروں سے زیادہ عرصے سے رکن، سینیٹر عبدالحسیب خان نے اس موقع پر ان کے بارے میں گفتگو کی۔ ان کی اس گفتگو کے بعد ہم نے ان سے حکیم صاحب کے بارے میں مزید کچھ باتیں معلوم کرنا چاہئیں۔ پھر تو عبدالحسیب خان صاحب ایسے رواں ہوئے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ عبدالحسیب خان نے کہا کہ میں پوری زندگی میں پاکستان میں تین شخصیات سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں اور وہ میرے آئیڈیل ہیں۔ تینوں ویژنری لیڈر تھے۔ ایک قائداعظم جو پاکستان دے گئے۔ دوسرے ڈاکٹر قدیر جو ملک کو ایٹمی قوت بنا گئے اور تیسرے بلاشبہ حکیم سعید شہید تھے انہوں نے بیک وقت تین میدانوں میں کام کیا۔ تعلیم، صحت اور اخلاقیات۔ اس مجموعے سے ہی انقلاب لائے جاتے ہیں۔ انہوں نے تعلیم کا میدان چنا تو ہمدرد یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ سینیٹر حسیب خان نے بتایا کہ ایک دن بہت سے لوگوں کو ماہرین تعلیم اور سماجی رہنماؤں کو جمع کیا اور دور افتادہ مقام پر لے گئے۔ شہر سے دور ویران میدان میں اُترے اور اعلان کیا کہ یہاں ہمدرد یونیورسٹی بناؤں گا۔ تقریباً سارے ہی لوگ بولنا شروع ہوگئے کہ یہاں کون آئے گا، بچے کہاں سے آئیں گے، آنا جانا ہی مشکل ہوگا، جب سب بول چکے تو حکیم صاحب نے تاریخی جملہ کہا کہ مگر مجھے تو بچے کھیلتے نظر آرہے ہیں۔ حکیم سعید کا ویژن تھا صرف یونیورسٹی نہیں تھی، ان کے پیش نظر ویلیج اسکولز بھی تھے آج ان ویلیج اسکولوں کے بچے معاشرے میں نہایت اہم پوزیشنوں پر ہیں۔ ان کو معلوم تھا کہ ان ہی گوٹھوں سے بچے اٹھیں گے اور یونیورسٹی میں بھی آئیں گے۔ حکیم صاحب کے انداز تربیت پر سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ ایک مرتبہ ایک ویلیج اسکول کے دورے کے دوران ایک بچے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے جوتے کی طرف نگاہ گئی اس پر مٹی لگی ہوئی تھی دو قدم آگے جانے کے بعد واپس ہوئے۔ جیب سے رومال نکالا جھک کر بچے کے جوتے کی مٹی صاف کی اور کہا کہ بیٹا جوتا صاف کرکے آیا کرو۔ اندازہ کریں وہ بچہ اس کا خاندان اس کے احباب اس کے بعد صفائی کا کتنا خیال رکھتے ہوں گے۔ حکیم صاحب عمل پہلے کرتے تھے لوگوں کو مشورہ بعد میں دیتے تھے۔

عبدالحسیب خان نے بتایا کہ میں ہمدرد شوریٰ اور نونہال اسمبلی کی مشترکہ تقریب میں بھی یہ کہہ کر آیا ہوں کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر بنایا۔ اور حکیم صاحب کے خلوص، محنت اور ان کے کام سے خوش ہو کر مزید درجہ بڑھانے کے لیے شہید کا رتبہ دے کر اپنے پاس بلایا۔ یقینا وہ مزید اعلیٰ درجوں میں ہوں گے۔ حکیم صاحب سے کیا سیکھا پر حسیب خان صاحب نے بتایا کہ ہر چیز۔۔۔ ایک دن جرمن کونسلیٹ جانا تھا مجھے بھی کہا کہ آجائیں میں پہنچا تو وہ فٹ پاتھ پر ٹہل رہے تھے۔ ان سے سیکھا تھا کہ وقت سے پہلے پہنچو۔ تو میں نے کہا کہ آپ فٹ پاتھ پر کیوں ہیں۔ کہنے لگے میاں ابھی پانچ منٹ باقی ہیں جوں ہی پانچ بجے تو جرمن کونسلر اور حکیم صاحب دونوں ایک ساتھ گیٹ پر پہنچے۔ وہ ہر پروگرام وقت پر شروع کرتے تھے لوگ کم ہوں تب بھی کہتے کہ وقت پر تلاوت شروع کریں لوگ آجائیں گے۔

حکیم صاحب کی شخصیت میں اتنا اثر کیوں تھا۔ کیونکہ وہ قرآن پڑھتے سمجھتے اور عمل کرتے تھے۔ پھر ان کی بات میں بھی اثر تھا۔ لیکن ہمیں کیا ہوگیا ہے ہم بھی تو قرآن پڑھتے ہیں اصل میں ہم صرف مسلمان ہیں ایمان والے نہیں ہیں سمجھنے اور عمل کرنے سے ایمان والے بنیں گے اور حکیم صاحب ایمان والے بھی تھے۔ میں نے حکیم صاحب کے ویلیج اسکول کو دیکھا اور سرجانی میں بروکس ایجوکیشن سسٹم کے نام سے اسکول کھولا۔ یہ اسکول بھی 18 سال سے چل رہا ہے۔ میٹرک تک ہے، یہاں سے اے اور اے پلس والے بچے پاس ہوتے ہیں، بی تو خال خال ہوتے ہیں، سی اور ڈی کی گنجائش نہیں۔ ان بچوں کو کسی اسکول کے بچوں کے سامنے بٹھا دیں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہوگا۔ آگے ضرور ہوسکتا ہے۔ میں نے حکیم صاحب کے ویلیج اسکولوں کے بچے دیکھ کر ہی یہ اسکول کھولنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں تو خود کاروبار کرتا ہوں لیکن حکیم صاحب نے روح افزا بنانے سے اس کی ابتدائی ڈسٹری بیوشن تک سارے کام اپنے ہاتھوں سے کیے۔ بڑے بڑے بزنس مین اس طرح کاروبار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ہمدرد کی مصنوعات، تعلیمی ادارے وغیرہ ان کو چلانے کے وسائل بھی خود پیدا کرنے کا نظام بنایا تھا۔ انہوں نے یونیورسٹی بنائی، اسکول بنائے، ہمدرد نونہال، ہمدرد صحت رسالے جاری کیے، نونہال اسمبلی بنا کر مستقبل کی نسل کو ملک چلانے کی تربیت کا شعور دیا۔ ہمدرد شوریٰ بنا کر ملک کے اہم مسائل پر بہترین دماغوں کو جمع کرکے ان کی رائے لیتے ہیں پھر متعلقہ اداروں اور حکومت تک پہنچایا جاتا ہے۔ گویا ہمدرد شوریٰ ایک بہت بڑا تھنک ٹینک ہے۔ اس میں ان امور پر بھی بات ہوتی ہے جو بسااوقات پارلیمنٹ میں بھی زیر بحث نہیں آتے۔

حکیم صاحب کی سب سے اچھی چیز کیا تھی۔۔۔ اس کے جواب میں عبدالحسیب خان نے کہا کہ ہر چیز اچھی تھی لیکن سب سے اچھے اخلاق تھے۔ میں نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ خوش اخلاق آدمی کی بات تو سب سننا چاہتے ہیں اور کچھ حاصل بھی کرتے ہیں۔ بس مظفر میاں ان کی باتیں اور یادیں تو ختم نہیں ہوں گی۔ پھر بلاؤ گے پھر وقت دوں گا لیکن بتارہا ہوں پھر بھی تشنہ رہو گے۔ بہت بڑا آدمی تھا ہم نے وہ قدر نہ کی جس کے مستحق تھے۔