ہماری زمین نظام شمسی کا انسانوں سے آباد واحد سیارہ ہے۔ اس کے 803943 مربع کلومیٹر (310404 مربع میل) پر مشتمل ملک پاکستان کے ہم امین ہیں۔ ہم اپنی دھرتی کے مقدس سینے پر فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ اس کے بطن سے معدنیات نکالتے ہیں۔ اس کے جنگلات سے لکڑی، چارہ اور شفائے امراض کے لیے جڑی بوٹیاں حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے اس میں بہنے والے حسین و جمیل دریائوں پر بند باندھ کر آبپاشی اور برقابی کا اہتمام کیا ہے۔ ہماری زمین کی لہر بہر ان دریائوں کے پانی سے قائم ہے تو اس سے بننے والی بجلی صنعت و زراعت کے علاوہ ہماری بے شمار اقتصادی سرگرمیوں کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن دنیا بھر کی طرح ہم بھی اپنے ملک کا ماحول تیزی سے تباہ کر رہے ہیں۔ آلودگی اور تباہی کا یہ عمل ہر سطح پر تیزی سے جاری ہے۔ دریائوں اور سمندر میں زہریلی کیمیائی مادے اور خطرناک فضلات شامل ہو رہے ہیں تو فضا خطرناک گیسوں اور دھوئیں سے آلودہ ہو رہی ہے۔ سبز پوش کوہستانی سلسلے جنگلات کی دولت سے محروم ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری زمین اپنے قیمتی بالائی پرت سے محروم ہو رہی ہے۔ یہ قیمتی مٹی درختوں کی جڑوں کی گرفت سے محروم اور بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر تربیلا اور منگلا جیسے عظیم آبی ذخیروں میں تہہ نشین ہو کر ان کی زندگی اور افادیت کو گھٹا رہی ہے۔
جنگلات کی تباہی سے ملک میں دن بدن قیمتی دوائی پودوں کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔ زمین میں پانی کے انجذاب کی رفتار بھی سست پڑ رہی ہے جس کے نتیجے میں زیر زمین آبی سطح گر رہی ہے۔ کوئٹہ کی بلدیہ ہر سال کڈی نے کنویں کھود کر پینے کا پانی فراہم کرنے پر مجبور ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک بنیادی وجہ زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی ہے۔ کراچی کے گرد و نواح میں برسوں سے لگے سرسبز و شاداب باغات سوکھ رہے ہیں کیونکہ ان کے کنوئوں میں پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے۔ حتیٰ کہ مدینتہ الحکمہ میں ایک سو ایکڑ پر محیط باغ ہمدرد بھی قلت آب کی وجہ سے مرجھا رہا ہے اور یہاں کاشت نباتات کے منصوبے بے اثر ہوتے جا رہے ہیں۔ جنگل اور روئیدگی کے خاتمے اور ملیر ندی سے مسلسل بجری نکالنے کے نتیجے میں بارانی پانی زمین میں جذب نہیں ہورہا ہے۔
گھاس اور روئیدگی سے محروم زمین ہوائوں کی زد میں رہتی ہے اس کے نتیجے میں مٹی کا یہ قیمتی پرت ختم ہورہا ہے۔
ماحول پاکستان کی یہ تباہی ہم سب دیکھ رہے ہیں لیکن کسی نے ابھی تک اس سلسلے کو روکنے کی کوئی مثبت اور موثر کوشش نہیں کی ہے۔ ہمدرد گزشتہ سالہاسال سے اس خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ہم نے صحت و ضمیر کے لیے شہر میں تباہ کن شور کو روکنے کے مخلصانہ مشورے دیئے کہ اس شور نے انسان کے عصبی سکون اور فکری توانائی کو غارت کر دیا ہے۔ ہم نے جنگلات کی تباہی پر صدائے احتجاج بلند کی۔ ہم نے کراچی کی فضا کی آلودگی کی جانب حکومتوں کو متوجہ کیا۔ ہم نے پاکستانی سمندر کے ماحول کی تباہی کا سلسلہ روکنے کی درخواست کی۔ ہم نے عرصہ پہلے جن خدشات کا اظہار کیا اور جن خطرات کی نشاندہی کی ان میں سے چند کا احساس اور اعتراف آج کیا جا رہا ہے جبکہ ماحول کی تباہی اپنی آخری سرحدوں کو چھونے لگی ہے۔ گویا ہم نے ماحول پاکستان کے معاملے میں بھی اپنے ناعاقبت اندیش ہونے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور ہائے یہ کیا غضب ہے کہ ہم نے باہم گشت و خون کو اختیار کر کے اپنی انسانیت کو داغ دار بنا لینا پسند کر لیا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ توانائی اور ترقی کا بڑا گہرا باہمی تعلق ہوتا ہے۔ گیس کی دریافت نے ہمیں سستا ایندھن فراہم کر کے اولین صنعتی پیش رفت کے قابل بنایا تو آج برقابی پورے ملک میں اپنی افادیت کے جلوے دکھا رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعت میں پھیلائو اور ترقی کے لیے بجلی اور پانی کی وافر فراہمی بے حد ضروری ہے۔ چند ماہ پہلے اخبارات میں تربیلا اور منگلا میں مٹی کے جمنے سے ان کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے کمی کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق آئندہ بیس سال میں یہ جھیلیں محض چند فٹ گہرے پانی کا ذخیرہ بن جائیں گی۔ دارالحکومت اسلام آباد میں راول جھیل کا انجام ہمارے سامنے ہے، اس کے باوجود ہمارے ارباب حل و عقد کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ عوام کے ووٹ حاصل کر کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین محترم ہی اس بڑھتے ہوئے تباہ کن طوفان کو دیکھنے اور اسے روکنے کی زحمت کر رہے ہیں۔ ان کی ترجیحات فکری نے تو ان کو پارلیمان سے بھی بے فکر بنا رکھا ہے۔ ان کی غیرحاضریوں پر سینیٹ کے صدر بھی چیخ اٹھے ہیں۔ ملک و ملت کا درد ہوتا تو وہ ضرور آنکھیں کھلی رکھ کر غیر ملکوں کے دوروں میں یہ دیکھتے کہ دنیا کی اور قومیں ان خطرات کا کس طرح مقابلہ کر رہی ہیں۔ چین کے دوروں میں اگر آنکھیں کھلی ہوتیں تو وہ یہ ضرور دیکھتے کہ انہوں نے اپنے مسائل صحت اور ماحول کس طرح اپنے وسائل اور اپنی طب کے ذریعہ سے حل کیے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ چینی گزشتہ ایک سو سال سے کس طرح خس کی جڑوں کی کاشت کر کے پانی اور اپنی زمین کی قیمتی پرت کو سیلاب اور ہوا کی دستبرد سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔ بنگلادیش اور ہندوستان والوں نے اسے دیکھا اور آج وہ اسے اپنے ملک کے کھیتوں کے اطراف کاشت کر کے نہ صرف اپنی مٹی کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ اس سے اس کی ذرخیزی اور زیر زمین سطح آب میں اضافے کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ گھاس ایک طرح چھلنی کا کام کرتی ہے۔ مٹی کو بہنے سے روکتی اور زمین میں پانی کے انجذاب کے عمل میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ کیڑے مکوڑوں کی دستبرد سے بھی محفوظ رہتی ہے۔ چونکہ اس کے بیج اپج سے محروم ہوتے ہیں اور یہ صرف جڑ میں پیدا ہوتی ہے، اس کی بے تحاشا روئدگی کا خدشہ نہیں ہوتا۔ ایک بار لگانے کے بعد یہ ایک ہی جگہ صدیوں تک جمی رہتی ہے۔
ہر سال ملک کی لاکھوں ٹن قیمتی مٹی بچانے اور آبی ذخیروں کی زندگی میں اضافے کے لیے ہمیں دوسرے ملکوں کے اس تجربے سے جلد از جلد استفادے کی فکر کرنی چاہیے۔ پاکستان کو قدرت نے جہاں بے شمار وسائل دیئے ہیں، مخلص محنتی اور حب وطن اور جذبہ قربانی سے سرشار افرادی قوت بھی عطا کی ہے۔ کاش کوئی ہوشمند قیادت ان وسائل کے تحفظ، ان سے کام لینے اور افرادی قوت سے استفادے کی فکر کرکے اور اس تباہی کو روکے۔
آنکھیں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا!