کراچی میں کنونشن ،چاروں صوبوں کے وکلاء کی آئینی ترامیم کیخلاف تحریک چلانے کی دھمکی

96

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف ملک بھر کے وکلا ایک پلیٹ فارم پر آگئے، کراچی بار کے کنونشن میں وکلا نے آئینی ترمیم لانے پر ملک گیر تحریک چلانے کی دھمکی دے دی۔ تفصیلات کے مطابق کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام وفاقی آئینی عدالت اور مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف آل پاکستان وکلا کنونشن کا سٹی کورٹ میں انعقاد کیا گیا۔ کنونشن میں پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار، لاہور اور بلوچستان ہائی کورٹ بارز کے عہدے داروں سمیت سابق صدر سپریم کورٹ بار منیر اے ملک، حامد خان، عابد زبیری، دیگر وکلاء￿ رہنما نے شرکت کی جبکہ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کوئی عہدے دار شریک نہیں ہوا۔ کنونشن میں پشاور ہائیکورٹ بار کے صدر فدا گل، وکیل رہنما علی احمد کرد، بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر افضال، لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر ریاست آزاد، سندھ بارکونسل کے وائس چیئرمین کاشف حنیف، بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین راہب بلیدی نے شرکت کی۔ کنونشن میں شریک وکلا نے مجوزہ آئینی ترامیم کو غیرآئینی و غیرقانونی قرار دیا اور آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر وکلا تحریک چلانے کی دھمکی دے دی۔ پشاور ہائیکورٹ بار کے صدر فدا گل نے کہا کہ ہم نے پشاور میں کنونشن کرایا وکلاء نے اس بات کا یقین دلایا کہ کسی بھی قسم کی ترمیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت کے غیر آئینی و غیر قانونی ہتھکنڈوں کے خلاف تحریک چلاسکتے ہیں، آئینی عدالت بنانے کا مقصد کیا ہے کہ آپ 2 عدالت عظمیٰ بنانا چاہتے ہیں؟ میں بتانا چاہتا ہوں کہ وکلاء خون دیں گے اور ایسی کوئی ترمیم اور آئینی عدالت کا قیام نہیں کریں گے۔ صدر لاہور ہائی کورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا کہ حکومت وفاق اور صوبوں میں آئینی عدالتوں کا قیام کررہی ہے، عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی عمر کی حد 60 سے65سال کرنے جارہے ہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا بھی درست عمل نہیں ہے، پورے وکلاء ملک گیر تحریک چلانے کے لیے تیار ہیں۔ کراچی بار کے جنرل سیکرٹری اختیار چنا نے کہا کہ سندھ کے موجودہ چیف جسٹس وکلا کی ویلفیئر پر میرٹ کو ترجیح دیتے ہیں، ہمیں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے رویئے پر افسوس ہے، ہم نے سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر اور سیکرٹری کو کنونشن میں آنے کی دعوت دی مگر سندھ ہائیکورٹ بار کے عہدیدار کنونشن میں نہیں آئے۔ وکلاء کنونشن میں فارم 47 کے ذکر پر بدمزگی ہوئی اور وکلا نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے۔ پیپلز لائرز فورم کے عہدے داروں نے کنونشن کے انعقاد کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس پر جنرل سیکرٹری کراچی بار نے کہا کہ کسی سیاسی ایجنڈے کے لیے وکلاء کنونشن منعقد نہیں کیا گیا، ہم نے کنونشن صرف وکلاء کی موجودگی کے لیے بلایا ہے۔ وکیل رہنما ممبر پاکستان بار کونسل محمد شفقت نے کہا کہ یہی آئینی ترمیم آپ کو آج اچھی لگ رہی ہے کل یہ آپ کو تنگ کرے گی چیف جسٹس پاکستان یہ آپ کا ذاتی ایجنڈا ہے، ہم اس ذاتی مسئلہ کو آئین سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے کیوں کہ یہ ترمیم آئین و قانون سے متصادم ہے۔ سابق وفاقی وزیر قانون شاہدہ جمیل نے کہا کہ وکلا کو مشورہ دیتی ہوں ذرا سنبھل کر چلیں، سب کے پاس آئینی ترمیم کا الگ مسودہ ہے، اب تک کتنی ترامیم ہوچکی ہیں؟ آئینی عدالت اور عدالت عظمیٰ کے درمیان تنازع ہوا تو کیا ہوگا؟ کہا جارہا ہے آئینی عدالت کے پہلے سربراہ کا تقرر صدر صاحب کریں گے، کیا ایسا کرنا مداخلت نہیں؟ دنیا بھر میں کہیں خفیہ طریقے سے ترمیم نہیں ہوتی، وکلا خفیہ طریقے سے لائی گئی کسی ترمیم کو قبول نہیں کریں گے۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ریاست علی آزاد نے کہا کہ مجوزہ ترمیم کو کوئی بھی وکیل من و عن تسلیم نہیں کرسکتا، سیکورٹی کے نام پر کسی کو اٹھانے پر رٹ دائر نہیں کی جاسکے گی، یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، جس عدالت کی تعیناتی سیاسی ہوگی وہ عدالت بھی سیاسی ہوگی، ہم کل بھی قانون کے ساتھ تھے آئندہ بھی قانون کے ساتھ ہوں گے، آئینی عدالت کا حلف پی سی او حلف جیسا ہے، وکلا نہ کبھی جھکے تھے نہ کبھی جھکیں گے، وکلا نے قربانیاں اس لیے نہیں دی تھیں، یہ ترمیم نہیں عدالت عظمیٰ کو تالا لگانے جارہے ہیں۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد نے کہا کہ 2007 میں آپ وکیلوں کی ایک تحریک تھی، سارے پاکستان کے وکلا اس تحریک کے دل و جان تھے، وہ تحریک پاکستان کا سنہری باب تھا، اس تحریک میں میرا ادنیٰ سا کردار تھا، اس تحریک میں ہم نے کہا تھا کہ ہمارا ہاتھ ہوگا اور تمہاری گردن ہوگی، ہم وہی وکلا تھے ہم نے بڑی گھن گرجتی ہوئی آواز میں کہا تھا اگر وردی تم نے پہنی ہے تو ہم بھی وکیل ہیں۔ صدر بلوچستان ہائی کورٹ بار افضال ہریفال نے کہا کہ ہمیں عوام کا مقدمہ لڑنا ہے، ہم نے آئین کے لیے قربانیاں دی ہیں، ہمیں دلیل سے قائل کریں، جتنے بھی مسودے ہیں ہم سے شیئر کریں، اگر اٹھارہویں ترمیم پر بات ہوسکتی ہے تو ابھی کیوں نہیں؟ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بنگلہ دیش یا ترکی ماڈل نہیں خانہ جنگی ہوگی، سیاسی جماعتوں سے بھی مسودہ شیئر نہیں کیا گیا، ہمارا مطالبہ ہے مسودہ عام کیا جائے تاکہ اس پر رائے عامہ ہموار کی جاسکے، ابہام کی صورت میں ملک کو انارکی کی طرف لے جانے کی کوشش ہوگی۔