حماس پر ایرانی موقف میں کمزوری

408

اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کے جوابی حملوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بڑی تبدیلی نوٹ کی گئی ہے، جسے ایران پر امریکی دبائو یا ایران کے یوٹرن سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اب تک دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں سب سے زیادہ مضبوط اور توانا آواز ایران ہی کی سمجھی جاتی تھی اور ایران بھی دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں خود کو فلسطین کا بڑا وکیل گردانتا رہا ہے لیکن امریکی پروپیگنڈے سے پریشان ہوکر یا کسی ڈپلومیسی کی وجہ سے ایران نے گزشتہ برس 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی کھلی تردید کردی ہے جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی اخباروں نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل نے اسرائیل پر گزشتہ برس کیے گئے حماس کے حملے میں ایران کی معاونت سے متعلق سوالات اٹھائے تھے۔ جس پر نیویارک میں موجود اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے امریکی اخباروں کو اپنے جواب میں مزید کہا کہ ایران، فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی حمایت کرتا ہے لیکن اسرائیل پر حملے کے بارے میں علم تھا اور نہ وہ اس حملے کو انجام دینے میں کسی بھی طرح ملوث ہے۔ ایران کی اس وضاحت کو یو ٹرن سمجھا جائے یا امریکی دبائو کا شاخسانہ لیکن یہ ایک اعتبار سے حماس کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ ابھی ایران کی جانب سے اس بیان کی کوئی وضاحت نہیں آئی ہے، عین ممکن ہے کہ امریکی میڈیا نے اسے توڑ مروڑ کر اپنے نقطۂ نظر سے پیش کیا ہو لیکن حماس کی اخلاقی، سفارتی اور عملی پشت پناہی کے لیے دوٹوک اور واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اگر صرف اتنا ہی کہا جاتا کہ حماس کے حملوں میں شریک تو نہیں تھے لیکن اس کے حملے درست تھے اور اس کا حق تھے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ قطر کے دارالحکومت میں مقیم حماس کے عہدیداروں کے حوالے سے بھی ایسا ہی بیان سامنے آیا ہے کہ انہوں نے بھی کہا کہ انہیں آپریشن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ غزہ میں مقیم حماس کا عسکری ونگ آپریشن کی منصوبہ بندی، فیصلہ کرنے اور اس کا حکم دینے کا ذمے دار تھا۔ حماس کے عہدیداروں کا مزید کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حملے کو جزوی یا مکمل طور پر ایران یا حزب اللہ سے جوڑنا غلط اور من گھڑت ہے۔ اسے حکمت عملی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن فوری طور پر تو یہی تاثر پیدا ہورہا ہے کہ ایران حماس کے اقدامات سے برات کا اعلان کررہا ہے، اس مسئلے پر ایران کا فوری اور ٹھوس ردعمل آنا چاہیے۔ اس معاملے کا آغاز نیویارک ٹائمز میں ہفتے کے روز رپورٹ میں انکشاف سے ہوا تھا کہ اسرائیل پر حملے سے قبل حماس کی خفیہ میٹنگوں کا ایجنڈا اسرائیلی فوج نے برآمد کرلیا اور اس تک اخبار نے بھی رسائی حاصل کی ہے۔ امریکی اخبار کے بقول اس دستاویز میں 7 اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کا تفصیلی ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں حملے کے ماسٹر مائنڈ یحییٰ سنوار کی جانب سے حماس کے سرحد پار حملے کے نتیجے میں اسرائیلی ردعمل میں ایران اور حزب اللہ کو مدد کے لیے قائل کرنے کے نکات بھی شامل ہیں۔ جہاں تک نیو یارک ٹائمز کا تعلق ہے تو وہ صہیونیوں کی جانب واضح جھکائو رکھتا ہے، ایک زمانے میں تو یہودیوں کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ نیو یارک ٹائمز کو جواب دینا اس کے جال میں پھنسنے کے مترادف تھا ایرانی عہدیداروں کو اس کے پروپیگنڈے کا جواب ہی نہیں دینا چاہیے تھا، لیکن اگر یہ ایران کا سرکاری موقف ہے تو افسوس ناک ہے، اس کی وجہ سے دوسرے کمزور ممالک بھی ایسا ہی موقف اختیار کرنے لگیں گے، اس معاملے میں گزشتہ دنوں حکومت پاکستان کی جانب سے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے، اس کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر وفود بھیجے جائیں گے اور اسلامی ممالک کے سربراہوں اور فوجی سربراہوں کا اجلاس بلایا جائے اور فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی جائے، اس عمل سے پاکستانی حکومت کو بھی تقویت ملے گی اور ایران یا کوئی اور ملک بھی کمزور نہیں پڑے گا۔ یہ بھی امت مسلمہ کی قیادت کرنے کا پاکستان کے لیے ایک اور موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف تو چالیس ملکی اسلامی فوج کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ اس موقع کو غنیمت جان کر چالیس ملکی فوج کے جرنیلوں کو بھی بلایا جائے اور ناٹو طرز کا اتحاد بھی قائم کیا جائے کہ ایک بھی مسلم ملک پر حملہ کیا گیا تو پوری امت مسلمہ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ایسا اتحاد موجودہ اسلامی حکمراں بناسکتے ہیں۔