لسی،جماعت اسلامی اور میرا خاندان

200

(3)
جماعت اسلامی پاکستان کا مرکز منصورہ لاہور میں ہے، منصورہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا محور و مرکز مانا جاتا ہے۔ اس مرکز سے ہماری بھی بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔

منصورہ کو پہلی بار بچپن میں والد محترم چودھری عبدالواحد گورایہ مرحوم کے ہمراہ کسان بورڈ کے ایک اجتماع میں دیکھا۔ لیکن کم عمری کی وجہ سے کچھ خاص یاد نہیں سوائے اس کے کہ جناب فرید پراچہ نے والد محترم و کچھ دیگر احباب کو زبردستی چائے پلائی، چائے پر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے چند دیگر افراد بھی مدعو تھے، جن کے نام اب یاد نہیں۔ فرید احمد پراچہ جمعیت کے دور میں میرے چچا چودھری خالد اقبال گورایہ مرحوم سے ملنے اکثر گھر آیا کرتے تھے، اور ان کے والد محترم مولانا گلزار احمد مظاہری کا بھی جماعتی پروگرامات کے سلسلے میں ہمارے گھر بہت زیادہ آنا جانا تھا۔ اس موقع پر بچپن میں ہی امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمدؒ سے ہاتھ ملانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب باقاعدہ ہوش و حواس میں پہلی بار میں منصورہ گیا۔ میٹرک امتحانات کے بعد میں نے کیڈٹ کالج میں داخلے کے لیے درخواست دی، جس کے ابتدائی ٹیسٹ، میڈیکل و انٹرویو کے لیے کیڈٹ کالج والوں نے ظہور الٰہی روڈ ، گلبرگ، لاہور میں واقع اپنے دفتر میں پہنچنے کی ہدایت کی۔ بغیر گھر بتائے اور کسی کو ساتھ لیے زندگی میں پہلی بار اکیلا ہی لاہور پہنچ گیا۔ سب مراحل ابتدائی ٹیسٹ، میڈیکل و انٹرویو کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کی خوشی کو اس وقت شدید دھچکا پہنچا جب کلرک بابو نے ایک فارم تھمایا اور کہا کہ اسے گزٹڈ آفیسر سے تصدیق کروا کے کل صبح آٹھ بجے جمع کروانا ہے۔

نہ گھر میں فون، نہ لاہور میں مقیم رشتہ داروں کا پتا، ادھر لاہور سے سرگودھا اس وقت پانچھ چھے گھنٹے کا سفر ہوا کرتا تھا۔ اب کیا کیا جائے۔ سرگودھا جا کر تو واپس آ نہیں سکتا تھا، فارم اٹیسٹ کروانے کے ساتھ ساتھ رات ٹھیرنے کا بھی انتظام کرنا تھا۔ پریشانی کے اس عالم میں منصورہ یاد آ گیا، دادا جان چودھری محمد اکبر گورایہ نے ملک فتح خان اعوان (سابق امیر جماعت تحصیل سلانوالی) کے ہمراہ منصورہ میں تربیت گاہیں اٹینڈ کر رکھی تھی، وہ اکثر محفلوں میں منصورہ کی مسجد و مہمان خانے کا ذکر بڑے پر تپاک انداز میں کیا کرتے تھے۔

بہرحال ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، پوچھتے پچھاتے، ڈھونڈتے ڈھانڈتے، دو چار ویگنیں تبدیل کر کے ملتان چونگی پہنچ ہی گیا۔ پر اب بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ گیٹ پر کھڑے پہرے داروں کو دیکھ کر جھجک گیا، کیونکہ کوئی جان پہچان نہیں تھی، گیٹ کی سیکورٹی دیکھتے ہوئے گیٹ تک جانے کی ہمت نہ ہو پا رہی تھی۔ وہاں جاؤں تو کس کا پوچھوں سیکورٹی والوں کو کیا بتاؤں۔

ڈیڑھ دو گھنٹے منصورہ گیٹ کے باہر ادھر ادھر اٹھتے بیٹھتے گزارنے کے بعد کہیں جا کر ہمت باندھی اور گیٹ کیپر کو جا کر بتایا کہ میں سرگودھا سے آیا ہوں میرے دادا جان جماعت کے رکن ہیں مجھے رات بھی بسر کرنی ہے اور فارم بھی اٹیسٹ کروانے ہیں۔

سیکورٹی پر مامور عملہ انتہائی خندہ پیشانی سے پیش آیا۔ انہوں نے اپنے پاس بٹھا لیا تھوڑی دیر بعد ایک بزرگ کو بلا کر مجھے ان کے حوالے کیا جن کا تعلق سرگودھا سے تھا اور منصورہ میں کوئی ذمے داری نبھاتے تھے۔ وہ بڑی شفقت سے پیش آئے مہمان خانے لے گئے کھانا کھلایا، میرے قیام کا بندوبست کیا اور عشاء کی نماز کے بعد منصورہ میں رہائشی ایک سرکاری ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے اور ان سے میرے سارے ڈاکومنٹس اٹیسٹ کروا دیے۔ صبح نماز فجر کے بعد ناشتہ کروایا، ملتان چونگی ویگن تک بٹھانے بھی آئے، افسوس کہ میں ان بزرگوں کا تعارف بھول گیا، غالباً امکان ہے کہ وہ فرشتہ صفت انسان ملک خضر حیات اعوان صاحب ہوں گے۔ بہرحال مولانا مودودیؒ کے تربیت یافتہ ایسے بزرگوں کی وجہ سے ہی جماعت اسلامی تا حال زندہ و جاوید ہے۔

آپ حیران نہ ہوں ہمارا منصورہ ایسا ہی ہے، امیر و غریب کے فرق کے بغیر منصورہ میں آنے والے ہر بندے کی عزت و توقیر ایک جیسی ہوتی ہے۔ منصورہ اس وقت بھی اسلامی تحریکوں کا محور و مرکز تھا اور اب بھی دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی امیدیں اسی سے وابستہ ہیں۔