احمق کا خواب

247

آج پھر فیودور دوستو وسکی کی ایک کہانی کا اختصار: احمق کا خواب۔۔۔ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے سب بے وقوف، کم فہم اور ناسمجھ تصور کرتے تھے۔ وہ ایسی بے ربط اور عجیب باتیں کرتا تھا جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ جبکہ وہ شخص یہ سمجھتا تھا کہ اسے ایسی سچائی کا علم ہے جس سے لوگ لاعلم ہیں۔ اس شخص کی پریشانی کا آغاز ماضی میں اس وقت ہوا تھا جب ایک مرتبہ وہ بہت پریشان، اداس رنجیدہ اور ذہنی دبائو کا شکار تھا۔ سرد رات تھی، بارش ہورہی تھی، بجلی بھی کڑک رہی تھی۔ اداسی کا اسے ایک ہی حل نظر آیا۔ دوستوں کی محفل۔ لیکن دوستوں کے ساتھ گپ شپ سے بھی اسے دبائو اور پریشانی سے نجات نہیں ملتی۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ سب بہت سطحی اور فضول باتیں کررہے ہیں، جن میں جھوٹ ہی جھوٹ اور مصلحت پسندی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ دوستوں سے کہتا ہے تم سب جھوٹ کی زندگی جی رہے ہو۔ ایک دوغلی زندگی، تم ایک دوسرے کے بارے میں جو محسوس کرتے ہو، سوچتے ہو تم وہ نہیں بولتے بلکہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہو۔ دوست کہتے ہیں تم پاگل ہوگئے ہو، تم واہموں کا شکار ہو۔ جس دنیا کا تم ذکر کر رہے ہو وہ دنیا کہیں موجود نہیں۔ دل برداشتہ ہوکر وہ شخص وہاں سے اٹھ آتا ہے۔

گھر کی طرف لوٹتے ہوئے وہ انتہائی افسردہ اور ڈیپرس تھا۔ سوچتا ہے دنیا میں کسی کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک بے معنی زندگی جی رہا ہے۔ بہتر ہے وہ اس زندگی سے نجات حاصل کرلے۔ اسے خیال آتا ہے کہ اس کے پاس ایک ریوالور ہے جس سے وہ اپنی زندگی ختم کرسکتا ہے۔ ان ہی خیالات میں الجھا ہوا، انتہائی دکھی اور ملول وہ راستہ طے کررہا تھا کہ ایک چھوٹی بچی اس کا دامن پکڑ لیتی ہے۔ معمولی اور بوسیدہ کپڑوں میں وہ ایک غریب بچی تھی۔ روتے ہوئے، ہاتھ پکڑ کر، جو اس سے مدد طلب کررہی تھی۔ بچی اس طرح بول رہی تھی کہ اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں لیکن پھر بھی اتنا واضح تھا کہ وہ اپنی امی کے لیے مدد کی طالب تھی جو سخت بیمار ہے اور اگر اسے فوری مدد نہ ملی تو شاید وہ زندہ نہ رہ سکے اور مرجائے۔ وہ شخص سوچتا ہے میں کیوں اس کی ماں کو بچانے کی کوشش کروں۔ میں تو خود مرنے جارہا ہوں۔ اس کی ماںجیے یا مرے میری بلا سے۔ مجھے کیا فرق پڑے گا۔ بچی سے ہاتھ چھڑا کر وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ بچی باربار اس کا ہاتھ پکڑتی ہے اور گڑگڑاتی ہے میری امی کو بچا لیجیے۔ بچی کے اس طرح کرنے سے وہ اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ مشتعل ہوجاتا ہے اور زور سے بچی کو جھڑک کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس سے مایوس ہوکر بچی سڑک کے دوسری طرف ایک اور آدمی کی طرف بڑھ جاتی ہے۔

اپنے گھر کے ایک کمرے میں آرام دہ کرسی پر بیٹھا وہ سوچتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اس دنیا سے نجات حاصل کرلی جائے۔ ریوالور نکال کروہ خود کو شوٹ کرنے والا ہی ہوتا ہے کہ یکایک اسے خیال آتا ہے کہ میں نے اس بچی کی مدد کیوں نہ کی۔ وہ اس خیال سے چھٹکارہ پانا چاہتا ہے۔ کیا ہوا جو میں نے اس بچی کی مدد نہیں کی۔ آخر میں اس بچی کی مدد کیوں کرتا؟ اس ایک بچی کی مدد کرنے سے کیا فرق پڑ جاتا؟ کیا یہ دنیا دکھوں سے پاک ہوجاتی؟ ہزار بار ذہن جھٹکنے کے باوجود یہ خیال اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ سوچتا ہے اب جب کہ میں مررہا ہوں ایک بچی کی مدد نہ کرنے پر میں کیوں پریشان ہورہا ہوں۔ شاید میں نے غلطی کی ہے۔ مجھے بچی کی مدد کرنا چاہیے تھی۔ یہ کشمکش اس پر اس قدر غالب آجاتی ہے کہ ریوالور اس کے ہاتھ ہی میں رہ جاتا ہے اور اسے نیند آجاتی ہے۔

نیند میں بھی وہ خواب دیکھتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گولی مارلی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ مرنے کے باوجود وہ لوگوں کی باتیں دیکھ اور سن رہا تھا۔ اس کی حسیات کام کررہی تھیں۔ تدفین کی رات کو بارش ہوتی ہے تو کفن کے اوپر سے پانی کے قطرے اس کی بند پلکوں پر ٹپکتے ہیں جنہیں وہ محسوس کرلیتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی زندگی ختم نہیں ہوتی۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک اور زندگی کا آغاز ہے۔ سینے پر بھی جہاں اس نے گولی ماری تھی اسے درد کا احساس ہوتا ہے۔ اسے خیال آتا ہے کہ خودکشی کرکے اس نے ایک بھاری گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ شدت سے خدا سے معافی مانگ رہا ہوتا ہے کہ قبر کھلتی ہے اور خدا کا ایک فرستادہ اسے آسمانوں میں کہیں بہت دور ایک ایسی سرزمین پر لے جاتا ہے جو زمین نہیں تھی لیکن لگتی بالکل زمین جیسی تھی۔ خدا کا فرستادہ اس زمین پر اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

یہ ایک عجیب دنیا تھی جہاں سب بہت خوش تھے۔ غم کیا ہوتا ہے انہیں معلوم ہی نہیں تھا۔ وہ پرامن اور دوستانہ ماحول میں رہتے تھے۔ لڑائی جھگڑے کے نام سے بھی ناواقف۔ سب ایک دوسرے سے ٹوٹ کرپیارکرتے تھے۔ ایک دوسرے کے بچوں سے بھی وہ یکساں محبت کرتے تھے۔ دکھوں اور بیماریوں کا بھی وہاں کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ بڑھاپے میں عمر کی حد کو پہنچنے کے بعد جب کسی کا انتقال ہوتا تھا تو کوئی روتا نہیں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ اگلی دنیا میں جارہا ہے۔ موت زندگی کا وقفہ اور منتقلی کا ایک لمحہ ہے۔ وہاں نہ تشدد اور مارپیٹ تھی اور نہ ہی امیری غریبی کا فرق۔ وہاں سب یکساں سمجھدار تھے۔ وہاں نہ قوم اور ملک کا تعصب تھا اور نہ ہی مذہبی تفریق۔ لوگوں کے اندر اپنی اپنی انفرادیت تھی لیکن اس کے باوجود سب برابر اور مساوی۔ یہاں اس اجنبی کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی اسے کہتے ہیں۔ جو یہاں کے لوگ جی رہے ہیں۔ وہ سمجھ گیا یہی زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ یہی زندگی کی وہ سچائی ہے جس کی وہ تلاش میں تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سرزمین پر بھی تبدیلی آتی ہے۔ اس تبدیلی کا باعث وہی اجنبی تھا۔ اس زمین پر بھی جو اپنی زمین کے طریقے چھوڑ نہیں پایا تھا۔ وہ جھوٹ بولتا رہتا تھا۔ انجانے میں اس زمین کے لوگ بھی اس سے جھوٹ بولنا سیکھ جاتے ہیں۔ جیسے ہی وہ اس نئی دنیا کے لوگوں کو جھوٹ بولنا سکھاتا ہے اس سرزمین پر بھی فساد پھوٹ پڑتا ہے۔ ان کا سکھ چین ختم ہو جاتا ہے۔ وہ لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں تضادات جنم لینا شروع کردیتے ہیں۔ اونچ نیچ کی تفریق بیدار ہوجاتی ہے۔ امارت اور غربت کے فرق نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ زیادہ پیسے والوں اور کم پیسے والوں میں خلیج پیدا ہو کر بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ لڑائی جھگڑے، مارپیٹ، تشدد اور خونریزی کی وارداتیں آغاز ہو جاتی ہیں۔ زندگی میں دکھ اور غم داخل ہو جاتے ہیں۔ موت ان کے لیے بھی ایک تکلیف دہ چیز بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنے ماضی کو بھولتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ کبھی اس سرزمین پر صرف محبت کاراج تھا۔ اب محبت ان کے لیے کتابوں اور فلموں میں پائے جانے والے جذبات تھے۔ اس زمین کے لوگ بھی بالکل ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے اجنبی کی زمین کے لوگ تھے۔ اجنبی شدید طور پر احساس گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس نئی زمین کے لوگوں کے دکھوں اور مصیبتوں کا سبب میں ہوں۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ تم لوگ اپنی اصل میں ایسے نہیں تھے۔ میری وجہ سے تم لوگ خراب اور کرپٹ ہوئے ہو۔ وہ لوگ اس پر ہنستے ہیں اور بہت ہنستے ہیں کہ عجیب احمق شخص ہے۔ لیکن وہ شخص ان کی اصلاح کے درپے رہتا ہے انہیں بتاتا ہے کہ تمہارا ماضی ہی تمہاری سچائی تھا۔ وہ لوگ اسے قیدو بند میں ڈالنے اور مارنے کے درپے ہوجاتے ہیں کہ یکایک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ خواب سے بیدار ہو جاتا ہے۔ وہ حیران ہو جاتا ہے کہ یہ اس نے کیسا سپنا دیکھا۔ اور طے کر لیتا ہے کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچائوں گا کہ سچائی زندہ رہتی ہے۔ سچائی ہی زندگی ہے۔ میں لوگوں کو بتائوں گا کہ زندگی صرف اس جیون تک محدود نہیں ہے۔ جو زندگی اپنے لیے پسند کرتے ہو ویسی ہی دوسروں کے لیے پسند کرو۔ میں دوسروں کو بتائوں گا اس دنیا کے علاوہ بھی ایک اور دنیا ہے۔ ٹھیک ہے لوگ اسے احمق سمجھیں گے اس کے خواب کو احمق کا خواب کہیں گے لیکن وہ لوگوں کو سچائی سے آگاہ کرے گا۔ وہ ریوالور ایک طرف رکھ دیتا ہے اور بچی کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔