فلسطین اور امت مسلمہ

156

وہ لڑکی ان دونوں کے قریب آ بیٹھی۔ ساتھ موجود چھوٹے بچے نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔
“آپ یہاں روز آتی ہیں۔۔؟” لڑکی نے ان کی جانب چہرہ موڑا۔
“جی۔۔! عشاء کے بعد ہم یہاں آکر کچھ دیر بیٹھ جاتے ہیں۔” حفضہ نے باغ میں نظریں گھمائیں۔
“کیوں۔۔؟” لڑکی کی نظر حفضہ پر تھی۔
“سستانے اور ہوا کھانے کے لیے۔۔!” حفضہ مسکرائی۔
“اور مسجد کے اس باغ میں سکون ملتا ہے۔۔” سویرا پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔
“کیا آج بھی سکون ملا۔۔؟” لڑکی نے سویرا کی جانب دیکھا۔
“اور کل بھی۔۔؟” ساتھ ہی اگلا سوال کیا۔
“کیا مطلب۔۔؟” سویرا کو ناگوار گزرا۔۔
” فلسطین میں حملے جاری ہیں۔۔؟” لڑکی نے چہرہ سامنے کرلیا۔
“واقعی۔۔۔ہر سال کا معمول بن گیا ہے یہ۔۔!” حفضہ نے افسوس سے کہا۔
“ان کا حملہ آور ہونا یا امت کا نظر انداز کرنا۔۔؟” لڑکی ہنوز سامنے دیکھ رہی تھی۔
ہمارے حکمرانوں سے اللہ پو چھے۔۔! کچھ کرتے ہی نہیں۔۔!” سویرا نے ہمیشہ والا عذر دیا۔
“اور آپ سے نہیں پوچھے گا اللہ۔۔؟” لڑکی آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔
“ہم کیا کرسکتے ہیں۔؟” اس نے کندھے اچکائے۔
“حکمرانوں سے پوچھ سکتے ہیں۔۔؟” لڑکی نے اس کی جانب دیکھا۔
“کیسے۔۔؟” حفضہ نے اسے غور سے دیکھا۔
“دنیا کو بتا کر۔۔!” لڑکی اس کے فون کو دیکھنے لگی۔
“ہاتھ میں جو عصا ہے تمہارے۔۔وقت پر اڑدہا بن جاتا ہے۔۔کبھی پتھروں سے پانی نکالتا ہے۔۔ اور کبھی پانی سے راستہ۔۔۔!مگر افسوس۔۔! وقت پر کام لیا نہیں جاتا اس سے۔۔۔!” لڑکی کی نظر فون پر تھی۔
“دل مقصد کو اپنائے گا۔۔تبھی عصا استعمال میں آئے گا۔۔!” لڑکی کھڑی ہوئی۔
نوٹیفیکیشن کی آواز پر سویرا فون کی جانب متوجہ ہوئی۔۔فیس بک پر تصویر موجود تھی۔۔اسی لڑکی کی تصویر۔۔ تین سالہ بھائی سمیت شہادت کی خبر کے ساتھ۔۔! سامنے اب کوئی نہیں تھا۔