مغرب کی ناراضی کے باوجود مودی سرکار روسی اسلحہ خانے کو مضبوط بنانے پر بضد

175

نئی دہلی: بھارت اب روس کو ممنوع ٹیکنالوجی فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ روس کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو ملنے والی کم و بیش بیس فیصد ممنوع ٹیکنالوجیز بھارت سے آتی ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق روس کو ممنوع ٹیکنالوجیز فراہم کرنے کا انکشاف امریکا اور یورپی یونین کے حکام نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ولادیمیر پوٹن کی وار مشین کو مضبوط بنانے والی برآمدات روکنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

اپریل اور مئی کے دوران بھارت نے روس کو کم و بیش 6 کروڑ ڈالر مالیت کی مایئکرو چپس، سرکٹس اور مشین ٹول فراہم کیے۔ جولائی میں یہ مالیت 9 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھی۔ امریکی و یورپی حکام کا کہنا ہے کہ روس کو ممنوع ٹیکنالوجیز فراہم کرنے میں پہلا نمبر چین کا ہے۔

یوکرین کے اتحادیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی انہوں نے روس کو ممنوع ٹیکنالوجیز فراہم کرنے کا معاملہ بھارتی حکام کے سامنے اٹھایا ہے کوئی معقول جواب نہیں ملا۔ امریکا اور یورپ دونوں چاہتے ہیں کہ روس کی وار مشین کو مضبوط بنانے والی ٹیکنالوجی کی فراہمی روک دی جائے مگر بھارت ایسا کرنے سے اب تک واضح طور پر گریز کرتا رہا ہے۔

امریکا اور یورپ نے مل کر ایسے تمام آئٹمز کی روس کو برآمد روک رکھی ہے جس کا دُہرا استعمال ہو۔ اب روس کے لیے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ کسی تیسرے ملک سے ایسے آئٹمز اور ٹیکنالوجیز لے۔ کبھی کبھی یورپی کمپنیوں کے ذیلی اداروں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور کبھی کوئی بچولیا یہ خدمت انجام دیتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا یہ معاملہ بھارتی قیادت کے سامنے رکھتی رہے گی اور اسلحہ سازی میں روس کی معاونت سے اجتناب برتنے پر زور دیتی رہے گی۔ امریکا اور یورپ نے روسی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز پر نظر رکھی ہوئی ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس کے لیے ٹیکنالوجیز کی فراہمی کے راستے مسدود کرنے پر بھی توجہ دی ہے۔ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات بڑے شپمنٹس کے راستے رہے ہیں۔ اب بھارت، ملائیشیا اور تھائی لینڈ بھی روسی اسلحہ ساز اداروں کی پیداوار بڑھانے میں معاونت کرنے والے آئٹمز کی سپلائی کے بڑے روٹس میں سے ہیں۔

امریکا اور یورپ کو بھارت کے کردار پر بہت تشویش لاحق ہے کیونکہ دونوں ہی خطے روس سے تعلقات بہتر بنانے کی نئی دہلی کی خواہش کے باوجود اُس سے اشتراکِ عمل بڑھانے کے خواہش مند رہے ہیں۔ اب معاملہ اس لیے بہت پیچیدہ ہوچکا ہے کہ مودی سرکار امریکا اور یورپ کی ناراضی کی پروا کیے بغیر روس سے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین جنگ کو ختم کرانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں مگر عملی سطح پر وہ امریکا اور یورپ دونوں کو بہت حد تک دھوکا دے رہے ہیں۔

امریکا اور یورپ نے روس کی تیل کی فروخت روکنے کی بہت کوشش کی ہے مگر اس معاملے میں بھی بھارت اُن کی بات ماننے سے صاف انکار کرتا رہا ہے۔ اس وقت بھارتی قیادت روس سے بڑے پیمانے پر تیل خرید رہی ہے۔ روس کے خریدار کم ہیں اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ رعایت دینے پر مجبور ہے۔ مودی سرکار اس کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔

بھارت نے روس کے لیے ٹرانس شپمنٹ کے حوالے سے بھی کردار ادا کرنا شروع کیا ہے اور اس پر بھی امریکا اور یورپی یونین کے ارکان نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں خطوں کے حکام کئی بار بھارت جاکر ٹرانس شپمنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرچکے ہیں مگر بھارت باز نہیں آرہا۔ کئی بھارتی کاروباری اداروں کو اس حوالے سے امریکا اور یورپ کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

جولائی میں امریکی وزیرِخزانہ ویلی ایڈییمو نے کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کو خط لکھ کر بھارتی کاروباری اداروں کے لیے اقتصادی پابندیوں کے خطرے سے خبردار کیا تھا۔ روسی اسلحہ ساز اداروں کی معاونت پر بھارتی بینکوں کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ بات بلوم برگ نیوز نے بتائی ہے۔